resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: لاٹری (Lottery) کے ذریعے کھلونے یا پیسے ڈال کر پاپڑ وغیرہ کا کاروبار کرنا (32241-No)

سوال: ایک شخص لاٹری کا کاروبار کرتا ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ فی لاٹری کی قیمت 10 روپے ہے اور 10 روپے والی 24 لاٹری کا ایک پیکٹ تیار ہوتا ہے جو کہ دکاندار کو 150 روپے کا فروخت کیا جاتا ہے اور ہر ایک لاٹری میں کچھ پاپڑ اور ایک کھلونا ہوتا ہے اور ان 24 لاٹری کے پیکٹ میں سے کچھ پیکٹ میں پاپڑ اور کھلونے کے ساتھ کچھ پیسے بھی ڈالے جاتے ہیں۔ اس مسئلہ میں حضرات علماء کرام کی رائے درکار ہے کہ اس طرح کا کاروبار کرنا شرعا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز نہیں تو اس کے جواز کی کوئی صورت ہو تو تو اس کی بھی رہنمائی فرمائیں۔ جزاکم اللہ تعالٰی خیرا فی الدارین

جواب: پوچھی گئی صورت میں لاٹری (Lottery) کے ذریعے کھلونے یا پیسے ڈال کر پاپڑ وغیرہ کا کاروبار درج ذیل شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے شرعاً درست ہوگا:
1) اس خریداری سے موہوم (غیر یقینی) انعامی رقم یا کھلونا مقصود نہ ہو، بلکہ وہ استعمال ہونے والی اصل چیز (پاپڑ وغیرہ) خریدنا مقصود ہو۔
2) اس کاروبار کو غیر معیاری اور گھٹیا سامان کی ترویج کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
3) اس چیز کی عام قیمت میں انعام کی وجہ سے اضافہ نہ کیا جائے۔
واضح رہے کہ اس طرح کی چیزیں بچے عموماً موہوم (غیر یقینی) انعام کی لالچ میں خریدتے ہیں، جس سے یہ معاملہ جوے (قمار) کی مشابہت اختیار کر لیتا ہے، نیز یہ چیزیں عموماً ناقص اور غیر معیاری ہوتی ہیں، اگر ناقص نہ بھی ہوں تو بھی ان کی قیمت عام بازاری قیمت سے عموماً زیادہ ہوتی ہے، اس طرح سے اس میں دھوکہ دہی کا عنصر بھی شامل ہوجاتا ہے، لہذا ایسی چیزوں کے کاروبار سے بچنا ضروری ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

احکام القرآن للجصاص: (128/4، ط: دار احیاء التراث العربی)
وقال قوم من أهل العلم: القمار كله من الميسر وأصله من تيسير أمر الجزور بالاجتماع على القمار فيه وهو السهام التي يجيلونها فمن خرج سهمه استحق منه ما توجبه علامة السهم فربما أخفق بعضهم حتى لايخطئ بشيء وينجح البعض فيحظى بالسهم الوافر وحقيقته تمليك المال على المخاطرة وهو أصل في بطلان عقود التمليكات الواقعة على الأخطار كالهبات والصدقات وعقود البياعات ونحوها إذا علقت على الأخطار ... ولأن معنى إيسار الجزور أن يقول من خرج سهمه استحق من الجزور كذا فكان استحقاقه لذلك السهم منه معلقاً على الحظر.

بحوث في قضایا فقهیة معاصرة: (235/2)
إن مثل ہذہ الجوائز التي تمنح علی أساس عمل عمله أحد لا تخرج عن کونه تبرعاً وہبةً؛ لأنہا لیس لہا مقابل، وأن العمل الذي عملہ الموہوبُ له لم یکن علی أساس الإجارة أو الجہالة، حتی یقال: إن الجائزة أجرة لعمله، وإنما کان علی أساس الہبة للتشجیع، وجاء في الموسوعة الکویتیة: الأصل إباحة الجائزة علی عمل مشروع سواء کان دینیًا أو دنیویًا لأنه من باب الحث علی الخیر والإعانة علیه بالمال، وهو من قبیل الہبة.

و فیه ایضا:
ان لا تتخذ ہذہ الجوائز ذریعة لترويج البضاعات المغشوشة٬ لان الغش والخديعة حرام لا يحوز.

فتاوی عثمانی: (258/3، ط: مکتبه دار العلوم کراتشی)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Loan, Interest, Gambling & Insurance