سوال:
عبدالغنی کے چار بیٹے ہیں اور سب والد کے ساتھ ایک ساتھ رہتے تھے، جب 2005 میں زلزلہ آیا تو اس میں مکان گرگیا اور پھر حکومت نے ہر شادی شدہ مرد کو معاوضہ دیا تو عبدالغنی کو معاوضے کی پہلی قسط 25000 ہزار روپے ملی اور باقی قسطیں نہیں ملیں، اسی دوران عبدالغنی کا انتقال ہوگیا اور اس وقت صرف عبدالوحید شادی شدہ تھا تو صرف اسی کو معاوضہ ملا تو اس نے اپنے معاوضے کے پیسوں ہی سے نیا مکان تعمیر کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ عبدالوحید نے جو اپنے معاوضے کے پیسوں سے مکان بنایا ہے، یہ صرف اسی کی ملکیت ہوگا یا باقی بھائیوں کو بھی اس میں سے حصہ ملے گا؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں حکومت کی طرف سے مکان کی تعمیر کے لیے ملنے والی جو رقم عبدالغنی کو ملی، وہ تو ان کے ورثاء میں میراث کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی، البتہ جو رقم عبدالغنی کے بیٹے عبدالوحید کو ملی ہے، اس میں دیگر ورثاء کا کوئی حق نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (759/6، ط: دار الفكر)
التركة في الاصطلاح ما تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال كما في شروح السراجية.
الفقه الإسلامي و أدلته: (7726/10، ط: دار الفكر)
التركة لغة: ما يتركه الشخص ويبقيه،۔۔۔وهي عند الحنفية: الأموال والحقوق المالية التي كان يملكها الميت. فتشمل الأموال المادية من عقارات ومنقولات وديون على الغير، والحقوق العينية التي ليست مالا، ولكنها تقوم بمال أو تتصل به، كحق الشرب والمسيل والمرور والعلو، والرهن إذ يرث الورثة الدين موثقا برهنه.وخيارات الأعيان، كخيار العيب وخيار التعيين وخيار فوات الوصف المرغوب فيه. ولا تشمل عندهم الخيارات الشخصية، كخيار الشرط وخيار الرؤية وحق الشفعة، فإنها حقوق متعلقة بشخص المتوفى لا بماله.ولاتشمل أيضا المنافع كالإجارة والإعارة، لانتهاء العقد بالموت، ولأن المنافع ليست مالا عند متقدمي الحنفية.ولا تشمل قبول الوصية، فتلزم الوصية بموت الموصى له، أي قبل أن يقبل أو يرد، ويعتبر عدم الرد قبولا.والحنفية يحصرون التركة في المال أوالحق الذي له صلة بالمال فقط.
بدائع الصنائع :(57/7، ط: دار الكتب العلمية)
لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته».
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی