سوال:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته محترم مفتی صاحب! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ میں آپ سے ایک خاندانی معاملے میں اسلامی اصولوں کے مطابق رہنمائی چاہتا ہوں جو جائیداد کی ملکیت سے متعلق ہے۔
سعودی عرب سےگزشتہ آٹھ سالوں تک میں نے اپنی تنخواہ والد صاحب کے اکاؤنٹ میں بھیجی اور اسی رقم سے انہوں نے ایک مکان تعمیر کیا، بعد میں والد صاحب اور والدہ دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ یہ مکان میری کمائی سے بنا ہے، لہٰذا وہ اسے اپنی زندگی میں ہی مجھے دے چکے ہیں، دونوں اس فیصلے پر متفق تھے۔ تاہم میرے پانچ بہن بھائیوں میں سے ایک بھائی اس فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا۔ میں چاہتا ہوں کہ اس معاملے کو شریعت کے مطابق درست طریقے سے حل کیا جائے تاکہ کسی کا حق ضائع نہ ہو۔
والد صاحب نے اپنی زندگی میں جائیداد کی تقسیم درج ذیل انداز میں کی:
400 گز کا مکان مجھے اپنی زندگی میں دے دیا اور فائل میرے نام کردی۔ 80 گز کا مکان بڑے بھائی کو دینے کا کہا، دو پلاٹ، جو میں نے اپنی تنخواہ والد صاحب کو دے کر خریدے، والد صاحب نے چھوٹے بھائی کو دینے کا فیصلہ کیا، 240 گز کا پلاٹ 1.7 کروڑ روپے میں فروخت کیا گیا اور والد صاحب نے کہا کہ یہ رقم تینوں بہنوں میں تقسیم کی جائے۔
براہ کرم اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صحیح طریقہ کار سے آگاہ فرمائیں تاکہ میں اس معاملے کو عدل و انصاف کے ساتھ حل کر سکوں۔ آپ کے وقت اور رہنمائی کا شکر گزار ہوں۔
جواب: واضح رہے کہ اگر باپ اور بیٹا ساتھ (joint) رہتے ہوں، دونوں کی کمائی کا ذریعہ الگ الگ ہو اور بیٹا اپنی مکمل کمائی یا اس کا بعض حصہ والد کو قرض، شراکت داری یا کسی قسم کی ملکیت کی صراحت کے بغیر دیتا ہو تو ایسی صورت میں وہ مال اور اس مال سے والد نے جو کچھ بھی بنا لیا ہو، وہ سب کا سب والد کی ملکیت شمار ہوتا ہے، لہذا آپ سعودیہ سے جو پیسے قرض، شراکت داری یا کسی قسم کی ملکیت کی صراحت کے بغیر والد صاحب کو دیتے رہے، وہ تمام پیسے اور ان پیسوں سے بننے والی تمام چیزیں (جائیداد وغیرہ) والد کی ملکیت شمار ہوں گی۔
نیز واضح رہے کہ شرعی طور پر وراثت انتقال کے بعد جاری ہوتی ہے، زندگی میں وراثت جاری نہیں ہوتی، بلکہ زندگی میں ہر شخص اپنی ملکیت کا خود مالک و مختار ہے، لہٰذا آپ کے والد کے ذمہ اپنی جائیداد کو زندگی میں تقسیم کرنا شرعاً لازم نہیں ہے، البتہ اگر والد خود اپنی خوشی و رضامندی سے اپنی زندگی میں ہی جائیداد تقسیم کرنا چاہیں تو اس کی اجازت ہے، لیکن شرعاً یہ میراث نہیں کہلائے گی، بلکہ یہ آپ کے والد کی طرف سے اپنی اولاد کے لیے ہبہ (گفٹ) کہلائے گا اور اس پر گفٹ کے احکام جاری ہوں گے۔
جائیداد زندگی میں تقسیم کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ کے والد پہلے اپنے لیے اور اپنی بیوی کے لیے اپنی جائیداد میں سے جو کچھ رکھنا چاہیں رکھ لیں، تاکہ بعد میں کسی کی محتاجی نہ ہو، نیز ان پر کسی کا قرض ہو تو وہ بھی ادا کرلیں، اس کے بعد جو بقایا مال و جائیداد بچے، اس میں بہتر یہ ہے کہ اپنی اولاد میں برابر برابر تقسیم کردیں، یعنی جتنا حصہ بیٹے کو دیں، اتنا ہی بیٹی کو بھی دیں اور اگر میراث کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے بیٹوں کو بیٹیوں سے دو گنا دینا چاہیں تو وہ بھی جائز ہے، کوئی حرج نہیں۔
واضح رہے کہ اولاد میں سے بلاوجہ کسی کو محروم کرنے یا نقصان پہنچانے کی غرض سے اس کے حصہ میں کمی کرنا یا اس کو جائیداد سے محروم کرنا بھی جائز نہیں ہے، البتہ اگر ان میں سے کوئی زیادہ فرمانبردار ہو یا دین دار ہو یا اس کی مالی حالت بہتر نہ ہو تو اس بناء پر کچھ زیادہ دینا جائز ہے۔
نیز چونکہ زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کرنا شرعاً ہبہ(گفٹ) ہے، اس لیے اگر کسی کو کچھ دینا چاہیں تو اس کو مالک و قابض بناکردینا لازم ہے، پھر آپ کے والد کے انتقال کے بعد یہ چیز ان کے ترکہ میں شامل نہیں ہوگی، بلکہ جس کو جو چیز قابض و مالک بناکر دی گئی ہوگی، وہی اس کا مالک ہوگا۔
ان تمام تمہیدی باتوں کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر سوال میں مذکور تمام جائیداد آپ کے والد کی ملکیت ہے اور آپ کے والد اپنی جائیداد زندگی میں تقسیم کرنا چاہیں تو ان کے لیے بہتر یہ ہے کہ اپنے لیے رکھنے کے بعد لڑکے اور لڑکیوں کو برابر سرابر دیں یا میراث کے اصول کے مطابق لڑکے کو لڑکی کے مقابلہ میں دگنا دیں، البتہ اگر کسی کو دینداری، خدمت یا مالی حالت بہتر نہ ہونے کی وجہ سے دوسروں سے زیادہ دینا چاہیں اور اس میں کسی کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن لابی داؤد: (كتاب الإجارة، باب في الرجل يأكل من مال ولده، رقم الحدیث:3530، ط: دارالرسالة العالمیة)
حدثنا محمد بن المنهال، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا حبيب المعلم، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" يا رسول الله، إن لي مالا وولدا وإن والدي يحتاج مالي، قال: انت ومالك لوالدك، إن اولادكم من اطيب كسبكم، فكلوا من كسب اولادكم".
مشكاة المصابيح: (رقم الحدیث: 3019، ط: المكتب الإسلامي، بيروت)
وَعَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ أَنَّ أَبَاهُ أَتَى بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلَامًا فَقَالَ: «أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَ مِثْلَهُ؟» قَالَ: لَا قَالَ: «فَأَرْجِعْهُ» .... وَفِي رِوَايَةٍ: أَنَّهُ قَالَ: «لَا أشهد على جور» (مُتَّفق عَلَيْهِ)
مرقاة المفاتيح: (2008/5، ط: دار الفكر)
(فَقَالَ: آكُلَّ وَلَدِكَ) : بِنَصْبِ كُلَّ (نَحَلْتَ مِثْلَهُ) أَيْ: مِثْلَ هَذَا الْوَلَدِ دَلَّ عَلَى اسْتِحْبَابِ التَّسْوِيَةِ بَيْنَ الذُّكُورِ وَالْإِنَاثِ فِي الْعَطِيَّةِ....قَالَ النَّوَوِيُّ: " فِيهِ اسْتِحْبَابُ التَّسْوِيَةِ بَيْنَ الْأَوْلَادِ فِي الْهِبَةِ فَلَا يُفَضِّلُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ سَوَاءٌ كَانُوا ذُكُورًا أَوْ إِنَاثًا، قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا: يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ، وَالصَّحِيحُ الْأَوَّلُ لِظَاهِرِ الْحَدِيثِ فَلَوْ وَهَبَ بَعْضَهُمْ دُونَ بَعْضٍ فَمَذْهَبُ الشَّافِعِيِّ، وَمَالِكٍ، وَأَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى - أَنَّهُ مَكْرُوهٌ وَلَيْسَ بِحَرَامٍ وَالْهِبَةُ صَحِيحَةٌ، وَقَالَ أَحْمَدُ وَالثَّوْرِيُّ وَإِسْحَاقُ - رَحِمَهُمُ اللَّهُ - وَغَيْرُهُمْ: هُوَ حَرَامٌ، وَاحْتَجُّوا بِقَوْلِهِ: «لَا أَشْهَدُ عَلَى جَوْرٍ».
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع: (4/ 30)
"وروي عن جابر بن عبد الله - رضي الله عنه - أن «رجلًا جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه أبوه، فقال: يا رسول الله إن لي مالًا، وإن لي أبًا وله مال، وإن أبي يريد أن يأخذ مالي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أنت ومالك لأبيك»، أضاف مال الابن إلى الأب؛ فاللام للتمليك، وظاهره يقتضي أن يكون للأب في مال ابنه حقيقة الملك، فإن لم تثبت الحقيقة فلاأقل من أن يثبت له حق التمليك عند الحاجة.
وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «إن أطيب ما يأكل الرجل من كسبه، وإن ولده من كسبه؛ فكلوا من كسب أولادكم إذا احتجتم إليه بالمعروف»، والحديث حجة بأوله وآخره، أما بآخره فظاهر؛ لأنه صلى الله عليه وسلم أطلق للأب الأكل من كسب ولده إذا احتاج إليه مطلقًا عن شرط الإذن والعوض؛ فوجب القول به.
وأما بأوله فلأن معنى قوله: "وإن ولده من كسبه" أي: كسب ولده من كسبه؛ لأنه جعل كسب الرجل أطيب المأكول، والمأكول كسبه لا نفسه، وإذا كان كسب ولده كسبه كانت نفقته فيه؛ لأن نفقة الإنسان في كسبه؛ ولأن ولده لما كان من كسبه؛ كان كسب ولده ككسبه، وكسب كسب الإنسان كسبه، ككسب عبده المأذون فكانت نفقته فيه".
تكملة فتح الملهم: (71/5، ط: مکتبة دار العلوم کراتشی)
"فالذي يظهر لہذا العبد الضعيف عفا الله عنه: ان الوالد ان وهب لاحد ابنائه هبة اكثر من غيره اتفاقا، او بسبب علمه، او عمله، او بره بالوالدين من غير ان يقصد بذالك اضرار الاخرين ولا الجور عليهم، كان جائزا علي قول الجمهور،....أما إذا قصد الاضرار او تفضيل احد الابناء علي غيره بقصد التفضيل من غير داعية مجوزة لذالك، فانه لا يبيحه احد....
رد المحتار: (کتاب الفرائض، 769/6، ط: سعید)
أن شرط الإرث وجود الوارث حيا عند موت المورث.
اللباب في شرح الكتاب: (217/2، ط: المكتبة العلمية، بيروت)
ومن شرط الإرث تحقق موت الموروث وحياة الوارث.
بدائع الصنائع: (127/6، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
ينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في النحلى لقوله سبحانه وتعالى {إن الله يأمر بالعدل والإحسان} [النحل: 90] .(وأما) كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا يفضل الذكر على الأنثى وقال محمد العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث للذكر مثل حظ الأنثيين كذا ذكر القاضي الاختلاف بينهما في شرح مختصر الطحاوي وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض.وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم [الخ]....وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى ....وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة.
الدر المختار: (696/5، ط: سعید)
وفي الخانية لابأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالإبن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم.
البحر الرائق: (288/7، ط: دار الكتاب الإسلامي)
يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم.
الهندية: (374/4، ط: دار الفکر)
ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة وأن يكون الموهوب متميزا عن غير الموهوب.
(کذا فی فتاوی بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 144212202346)
فقہی مباحث: (21/9، ط:دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی