عنوان: "إنما يخشى الله من عباده العلماء" كى تفسير (10503-No)

سوال: مجھے قرآن کریم کی اس آیت (إِنَّمَا يَخْشَى ٱللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ ٱلْعُلَمَـٰٓؤُا۟ ۗ ) کے مفہوم کے حوالے سے رہنمائی چاہیے۔ مجھے اس آیت مبارکہ کے دو مفہوم سمجھ میں آرہے ہیں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ ان میں کون سا مفہوم درست ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ دونوں درست ہوں؟
۱) یہ کہ جو اللہ سے ڈرتا ہے درحیقیقت وہی عالم ہے، بے شک سند یافتہ نہ ہو۔
۲) یہ کہ عالم ہی اللہ سے ڈرتا ہے، پس جونہی ایک فرد عالم کی سند پا لیتا ہے وہ خود بخود اللہ سے ڈرنے والا بن جاتا ہے۔
دراصل میں تعلیم یافتہ اور سند یافتہ میں فرق کرنا چاہتا ہوں، ہمارے عصری اداروں میں یہ مسئلہ بہت زیادہ ہے، لوگ سند یافتہ بن جاتے ہیں، لیکن تعلیم یافتہ نہیں بن پاتے۔
نوٹ: اگر کوئی تیسری صورت ممکن ہو جو مجھے سمجھ نہ آئی ہو تو وہ بھی سمجھا دیں۔

جواب: اس آیت کى تفسیر میں حضرت مفتى محمد شفیع عثمانى صاحبؒ نے تفسیر "معارف القرآن" جلد 7 ص 337 میں جو تفسیر بیان فرمائى ہے، اس کے مطالعے سے اس آیت کا مفہوم پورى طرح واضح ہو جاتا ہے، آیت کا ترجمہ وتفسیر حسب ذیل ہے: ترجمہ: اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔ (سورۃ الفاطر: آیت نمبر: 28)
تفسیر: "آیت میں لفظ "علماء" سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ جل شانہ کی ذات و صفات کا کماحقہ علم رکھتے ہیں اور مخلوقاتِ عالم میں اس کے تصرفات پر اور اس کے احسانات و انعامات پر نظر رکھتے ہیں، صرف عربی زبان یا اس کے صرف و نحو اور فنون بلاغت جاننے والوں کو قرآن کی اصطلاح میں "عالم" نہیں کہا جاتا، جب تک اس کو اللہ تعالی کی معرفت مذکورہ طریقہ پر حاصل نہ ہو۔
حسن بصری رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ عالم وہ شخص ہے جو خلوت و جلوت میں اللہ سے ڈرے اور جس چیز کی اللہ تعالی نے ترغیب دی ہے وہ اس کو مرغوب ہو اور جو چیز اللہ کے نزدیک مبغوض ہو، اس کو اس سے نفرت ہو۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "بہت سی احادیث یاد کر لینا یا بہت باتیں کرنا کوئی علم نہیں، بلکہ علم وہ ہے جس کے ساتھ اللہ کا خوف ہو"۔
حاصل یہ کہ جس قدر کسی میں خدا تعالی کا خوف ہے، وہ اسی درجے کا عالم ہے۔
احمد بن صالح مصری نے فرمایا کہ "خشیۃُاللہ" کو کثرتِ روایت اور کثرتِ معلومات سے نہیں پہچانا جا سکتا، بلکہ اس کو کتاب و سنت کے اتباع سے پہچانا جاتا ہے۔ (ابن کثیر)
شیخ شہاب الدین سہروردیؒ نے فرمایا کہ اس آیت میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ جس شخص میں "خشیۃ" نہ ہو وہ عالم نہیں۔ (مظہری )
اس کی تصدیق اکابرِ سلف کے اقوال سے بھی ہوتی ہے، حضرت ربیع بن انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "جو اللہ سے نہیں ڈرتا وہ عالم نہیں" اور مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایا: "عالم تو صرف وہی ہے جو اللہ سے ڈرے"۔
سعد بن ابراہیم سے کسی نے پوچھا کہ مدینہ میں سب سے زیادہ "افقہ" کون ہے؟ تو فرمایا: "جو اپنے رب سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہو"۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ نے "فقیہ" کی تعریف اس طرح فرمائی:"مکمل فقیہ وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس بھی نہ کرے اور ان کو گناہوں کی رخصت بھی نہ دے اور ان کو اللہ کے عذاب سے مطمئن بھی نہ کرے اور قرآن کو چھوڑ کر کسی دوسری چیز کی طرف رغبت نہ کرے اور فرمایا اس عبادت میں کوئی خیر نہیں جو بے علم کے ہو اور اس علم میں کوئی خیر نہیں جو بے "فقہ" یعنى بے سمجھ بوجھ کے ہو اور اس قراءت میں کوئی خیر نہیں جو بغیر تدبر کے ہو"۔
مذکورہ تصریحات سے یہ شبہ بھی جاتا رہا کہ بہت سے علماء کو دیکھا جاتا ہے کہ ان میں خدا کا خوف وخشیت نہیں، کیونکہ تصریحاتِ بالا سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک صرف عربی جاننے کا نام علم اور جاننے والے کا نام عالم نہیں، جس میں خشیت نہ ہو، وہ قرآن کی اصطلاح میں عالم ہی نہیں، البتہ خشیت کبھی صرف اعتقادی اور عقلی ہوتی ہے جس کی وجہ سے آدمی بہ تکلف احکام شرعیہ کا پابند ہوتا ہے اور کبھى یہ خشیت حالى اور ملکہ راسخہ کے درجہ میں ہوجاتی ہے، جس اعتبار اتباع شریعت ایک تقاضائے طبیعت بن جاتا ہے، خشیت کا پہلا درجہ "مأمور بہ" اور عالم کے لیے ضروری ہے، دوسرا درجہ افضل اور اعلی ہے ضرورى نہیں۔ (از بیان القرآن)"۔ (معارف القرآن: جلد 7 ص 337-338، طبع:مکتبہ معارف القرآن، کراچى)

واللہ تعالى اعلم بالصواب
دار الإفتاء الإخلاص،کراچى


Print Full Screen Views: 3815 May 16, 2023
"إنما يخشى الله من عباده العلماء" ki tafseer

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation of Quranic Ayaat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.