سوال:
1) بیرون ملک مقیم ایک شخص سے پاکستان کے رہائشی نے 5 لاکھ روپے قرض مانگا جو کہ 1750 ڈالر بنتے ہیں۔
چونکہ پاکستان میں ڈالر کا ریٹ تبدیل ہوتا رہتا ہے اور بیرون ملک رہائشی جو کماتا بھی ڈالر میں ہے اور زکوۃ بھی ڈالر کے حساب سے دیتا ہے تو کیا قرض دینے والا قرض کی واپسی ڈالر ہی میں ڈیمانڈ کر سکتا ہے؟
2) اگر قرض دہندہ یہ شرط رکھے کہ جس دن قرض کی واپسی کرنی ہو، اس دن کے ڈالر ریٹ کے حساب سے 1750 ڈالر کے برابر پاکستانی روپے کی جتنی بھی رقم بنتی ہو، وہ قرض دہندہ کے بتائے ہوئے شخص کو بطور زکوۃ پاکستان میں ہی ادا کر دی جائے تو کیا اس طرح قرض دہندہ کے 1750 ڈالر زکوۃ کی مد میں ادا ہو جائیں گے؟
جواب: 1) قرض خواہ قرض کی واپسی کا مطالبہ ڈالر میں کرنے کا حقدار ہے، کسی اور کرنسی میں واپسی کی شرط لگانا شرعاً جائز نہیں ہے، البتہ قرض کی واپسی کے دن باہمی رضامندی سے پاکستانی روپے میں واپسی کرنا چاہیں تو جائز ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہوگا کہ ادائیگی والے دن ڈالر کی قیمت کے حساب سے جتنے پاکستانی روپے بنتے ہیں وہ ادا کرے۔
2) قرض خواہ کا یہ شرط لگانا کہ "میرے قرض کی رقم کو ادائیگی کے دن کے ریٹ کے حساب سے پاکستانی روپے میں مستحق ِ زکوۃ کو زکوۃ میں دے دینا" درست نہیں ہے، کیونکہ مستحق زکوٰۃ تک زکوٰۃ کی رقم پہنچانے کی زمہ داری لگانا، یہ بھی قرض سے ایک طرح کا نفع لینا ہے، اور قرض کے ذریعے کسی قسم کا نفع سود کے زمرے میں آتا ہے۔
البتہ اگر شرط نہ لگائی جائے اور جب قرض کی واپسی کا وقت آجائے، اس وقت قرض خواہ درخواست کرے کہ اگر آپ کے لیے آسانی ہو تو قرض کی رقم فلاں مستحق زکوٰۃ تک پہنچادیں اور قرضدار رضامندی سے وہ رقم مستحق تک پہنچادے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبي داؤد: (رقم الحديث: 3354، 242/5، ط: دار الرسالة العالمية)
عن ابن عمر، قال: كنت أبيع الإبل بالبقيع، فأبيع بالدنانير وآخذ الدراهم، وأبيع بالدراهم وآخذ الدنانير، آخذ هذه من هذه، وأعطي هذه من هذه، فأتيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وهو في بيت حفصة، فقلت: يا رسول الله، رويدك أسألك، إني أبيع الإبل بالبقيع، فأبيع بالدنانير وآخذ الدراهم، وأبيع بالدراهم وآخذ الدنانير، آخذ هذه من هذه، وأعطي هذه من هذه، فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "لا بأس أن تأخذها بسعر يومها، ما لم تفترقا وبينكما شيء".
رد المحتار: (162/5، ط: دار الفكر)
(قوله فلا عبرة بغلائه ورخصه) فيه أن الكلام في الكساد، وهو ترك التعامل بالفلوس ونحوها كما قلنا، والغلاء والرخص غيره، وكأنه نظر إلى اتحاد الحكم فصح التفريع تأمل.وفي كافي الحاكم لو قال: أقرضني دانق حنطة فأقرضه ربع حنطة، فعليه أن يرد مثله وإذا استقرض عشرة أفلس، ثم كسدت لم يكن عليه إلا مثلها في قول أبي حنيفة، وقالا: عليه قيمتها من الفضة يستحسن ذلك وإن استقرض دانق فلوس أو نصف درهم فلوس، ثم رخصت أو غلت لم يكن عليه إلا مثل عدد الذي أخذه، وكذلك لو قال أقرضني عشرة دراهم غلة بدينار، فأعطاه عشرة دراهم فعليه مثلها، ولا ينظر إلى غلاء الدراهم، ولا إلى رخصها، وكذلك كل ما يكال ويوزن فالقرض فيه جائز.
الدر المختار مع رد المحتار: (166/5، ط: دار الفكر)
القرض لا يتعلق بالجائز من الشروط فالفاسد منها لا يبطله ولكنه يلغو شرط رد شيء آخر۔۔۔ وفي الخلاصة القرض بالشرط حرام والشرط لغو بأن يقرض على أن يكتب به إلى بلد كذا ليوفي دينه. وفی الشامية تحته: (قوله بأن يقرض إلخ) هذا يسمى الآن بالوصية قال في الدرر كره للسفتجة بضم السين وفتح التاء تعريب سفته: وهي شيء محكم ويسمى هذا القرض به لإحكام أمره وصورته: أنه يدفع إلى تاجر مبلغا قرضا ليدفعه إلى صديقه في بلد آخر ليستفيد به سقوط خطر الطريق اه. وقال في الخانية: وتكره السفتجة إلا أن يستقرض مطلقا ويوفي بعد ذلك في بلد أخرى من غير شرط اه.
تبيين الحقائق: (175/4، ط: المطبعة الكبرى الأميرية)
قال - رحمه الله - (وكره السفاتج) وهو قرض استفاد به المقرض أمن خطر الطريق وصورته أن يقرض ماله إذا خاف عليه الفوات ليرد عليه في موضع الأمن وهو تعريب سفته وسفته شيء محكم وسمي هذا القرض به لإحكام أمره وإنما كره لما روي أنه - عليه الصلاة والسلام - «نهى عن قرض جر نفعا» وقيل إذا لم تكن المنفعة مشروطة، فلا بأس به والله أعلم.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی