سوال:
ایک مولوی صاحب کسی مسجد میں امامت کرتے ہیں، اہل علاقہ کا تعاون نہ ہونے کے برابر ہے، اگر تعاون کرتے بھی ہیں تو ایک تاریخ پر نہیں دیتے، بلکہ کبھی 500 روپے تو کبھی 1000 روپے دیتے ہیں، اس لیے وہ بہت پریشان ہیں۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا وہ مولوی صاحب مسجد کے اندر سلائی مشین رکھ کر لوگوں کے کپڑے سی سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب: مسجد کی حدود میں کسی کے لیے خرید و فروخت کرنا یا اجارے کا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، اور فقہاءؒ نے مسجد میں خرید و فرخت کو مکروہ تحریمی لکھا ہے، البتہ معتکف کو صرف زبانی بیع و شراء کی اجازت دی گئی ہے، لہذا سوال میں پوچھی گئی صورت میں امام مسجد کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ مسجد کی حدود میں سلائی مشین رکھ کر لوگوں کے کپڑے سینے کا کاروبار شروع کردے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (رقم الحديث: 1321، ط: دار الغرب الاسلامی)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَبِيعُ أَوْ يَبْتَاعُ فِي الْمَسْجِدِ، فَقُولُوا: لاَ أَرْبَحَ اللَّهُ تِجَارَتَكَ، وَإِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَنْشُدُ فِيهِ ضَالَّةً، فَقُولُوا: لاَ رَدَّ اللَّهُ عَلَيْكَ.
الدر المختار مع رد المحتار: (449/2، ط: دار الفكر)
(وكره) أي تحريما لأنها محل إطلاقهم بحر (إحضار مبيع فيه) كما كره فيه مبايعة غير المعتكف مطلقا للنهي۔
(قوله مطلقا) أي سواء احتاج إليه لنفسه أو عياله أو كان للتجارة أحضره أو لا كما يعلم مما قبله ومن الزيلعي والبحر (قوله للنهي) هو ما رواه أصحاب السنن الأربعة وحسنه الترمذي :أن رسول الله نهى عن الشراء والبيع في المسجد وأن ينشد فيه ضالة أو ينشد فيه شعر ونهى عن التحلق قبل الصلاة يوم الجمعة۔
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی