عنوان: پانی پلانے کی فضیلت سے متعلق چند روایات (10525-No)

سوال: احادیث مبارکہ کی روشنی میں پانی پلانے کا کیا ثواب ہے؟

جواب: کسی بھی انسان کو پانی پلانا ایک ثواب کا کام ہے، احادیث مبارکہ میں اس کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، ذیل میں اس حوالے سے چند روایات کا ترجمہ ذکر کیا جاتا ہے۔
۱) احادیث مبارکہ میں پانی پلانے کو’’ صدقہٴ جاریہ‘‘ فرمایا گیا ہے، جس کا ثواب مرنے کے بعد بھی انسان کو ملتا رہتا ہے۔
حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے جناب رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میری والدہ وفات پاگئی ہیں، ان کی طرف سے کون سا صدقہ افضل ہے؟ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پانی کا صدقہ، چنانچہ انہوں نے ایک کنواں کھدوا کر وقف کردیا اور کہا یہ سعد کی والدہ کے ثواب کے لیے ہے۔(ابو داوٴد، حدیث نمبر:1681)
۲) دنیا میں پانی پلانے کا اجر و ثواب اس قدر ہے کہ اس پانی پلانے کے عوض اللہ عزوجل قیامت کے دن اس شخص کو اس پانی کے بدلے جنت کی شراب مرحمت فرمائیں گے، چنانچہ حضرت ابو سعدؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان کسی ننگے کو کپڑا پہنائے گا تو اللہ تعالی اس کو جنت کا ہرا لباس پہنائے گا اور جو مسلمان کسی بھوکے کو کھانا کھلائے تو اللہ تعالی اس کو جنت کے پھل کھلائے گا اور جو مسلمان کسی پیاسے کو پانی پلائے تو اس کو اللہ تعالی جنت کی شراب پلائے گا“۔ (ابوداوٴد، حدیث نمبر:1682)
۳) سنن ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ’’ جس نے کسی مسلمان کو ایسی جگہ ایک گھونٹ پانی پلایا جہاں پانی ملتا ہے، گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا، اور جس نے کسی مسلمان کو ایسی جگہ ایک گھونٹ پانی پلایا جہاں پانی نہ ملتا ہو گویا اس نے اس کو نئی زندگی بخشی“۔ ( سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر:2473)
۴) کسی انسان کو پانی پلانا جنت سے قربت اور جہنم سے دوری کا باعث ہے۔
امام طبرانی (م360ھ) نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت نقل کی ہے، حضرت کدیر ضبیؒ سے مرسلاً مروی ہے کہ ایک دیہاتی نبی کریم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا، اور کہنے لگا: مجھے کوئی ایسا عمل بتلادیجیے جو مجھے جنت سے قریب اور جہنم سے دور کردے، آپ ﷺ نےفرمایا: کیا تم ان دونوں پر عمل کرو گے؟ تو اس نے کہا: جی ہاں! تو آپ ﷺ نے فرمایا: انصاف کی بات کہو اور زائد چیز دوسروں کو دے دو، اس نے کہا: اللہ کی قسم ! میں نہ تو ہر گھڑی انصاف کی بات کرسکتا ہوں اور نہ زائد چیز کسی کو دے سکتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: کھانا کھلاوٴ اور سلام کو عام کرو۔ اس نے کہا : یہ بھی مشکل ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں! تو آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے اونٹوں میں ایک اونٹنی دیکھو اور ایک مشکیزہ لو، پھر ان لوگوں کے گھر جاؤ جن کو پانی کبھی کبھی ملتا ہے، انہیں پانی پلاؤ، ہو سکتا ہے کہ تمہارے لیے جنت واجب ہوجائے اس سے پہلے کہ تمہاری اونٹنی ہلاک ہو اور تمہارا مشکیزہ پھٹ جائے۔ ( راوی کہتے ہیں کہ ) وہ دیہاتی تکبیر کہتے ہوئے چلا گیا، اور اس کے مشکیزہ کے پھٹنے اور اس کی اونٹنی کے ہلاک ہونے سے پہلے وہ شہید ہوگیا“۔ (المعجم الکبیر، حدیث نمبر:422)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن أبي داؤد: (رقم الحديث: 1681، 109/3، ط: دار الرسالة العالمية)
عن سعد بن عبادة، أنه قال: يا رسول الله، إن أم سعد ماتت، فأي الصدقة أفضل؟ قال: "الماء" قال: فحفر بئرا، وقال: هذه لأم سعد.

أیضاً: (رقم الحديث: 1682، 110/3)
عن أبي سعيد عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: ’’أيما مسلم كسا مسلما ثوبا على عري كساه الله من خضر الجنة، وأيما مسلم أطعم مسلما على جوع أطعمه الله من ثمار الجنة،وأيما مسلم سقى مسلما على ظمإ سقاه الله عز وجل من الرحيق المختوم‘‘.

سنن ابن ماجة: (رقم الحديث: 2473، 529/3، ط: دار الرسالة العالمية)
عن عائشة، أنها قالت: يا رسول الله ما الشيء الذي لا يحل منعه؟ قال: «الماء، والملح، والنار» ، قالت: قلت: يا رسول الله هذا الماء قد عرفناه، فما بال الملح والنار؟ قال: «يا حميراء من أعطى نارا، فكأنما تصدق بجميع ما أنضجت تلك النار، ومن أعطى ملحا، فكأنما تصدق بجميع ما طيب ذلك الملح، ومن سقى مسلما شربة من ماء، حيث يوجد الماء، فكأنما أعتق رقبة، ومن سقى مسلما شربة من ماء، حيث لا يوجد الماء، فكأنما أحياها».
هذا الحديث أورده ا لبوصيري في’’مصباح الزجاجة‘‘ (81/3)(678)وقال: هذا إسناد ضعيف لضعف علي بن جدعان وهذا الحديث أورده ابن الجوزي في الموضوعات وأعله بعلي ابن زيد بن جدعان وقال بعضهم كل حديث ورد فيه الحميراء ضعيف واستثنى من ذلك ما أخرجه الحاكم من طريق عبد الجبار.

المعجم الكبير: (رقم الحديث: 422، 187/19، ط: مكتبة ابن تيمية)
عن أبي إسحاق: أخبرني كدير الضبي: أن رجلا أعرابيا أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: أخبرني بعمل يقربني من الجنة ويباعدني من النار، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «أوهما أعملتاك؟» ، قال: نعم، قال: «تقول العدل وتعطي الفضل» ، قال: والله ما أستطيع أن أقول العدل كل ساعة، وما أستطيع أن أعطي فضل مالي، قال: «تطعم الطعام وتفشي السلام» ، قال: هذه أيضا شديدة، فقال: «فهل لك إبل؟» ، قال: نعم، قال: «فانظر إلى بعير من إبلك وسقاء ثم اعمد إلى أهل بيت لا يشربون الماء إلا غبا فاسقهم، فلعلك لا تهلك بعيرك ولا تخرق سقاءك حتى تجب لك الجنة» ، فانطلق الأعرابي يكبر، فما انخرق سقاؤه ولا هلك بعيره حتى قتل شهيدا.
هذا الحديث أورده الهيثمي في ’’مجمع الزوائد‘‘(132/3)(4728)وقال: رواه الطبراني في الكبير، ورجاله رجال الصحيح.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1659 May 22, 2023
pani pilanay / pilaney ki fazilat se / say mutaliq chand riwayat

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.