resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: حیض و نفاس کے غسل کے بعد مخصوص جگہ پر خوشبو استعمال کرنے والی حدیث کی وضاحت (24939-No)

سوال: ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے منصور بن صفیہ سے، انھوں نے اپنی ماں صفیہ بنت شیبہ سے، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے فرمایا کہ ایک انصاریہ عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں حیض کا غسل کیسے کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشک میں بسا ہوا کپڑا لے کر اس سے پاکی حاصل کر۔ اس نے پوچھا۔ اس سے کس طرح پاکی حاصل کروں، آپ نے فرمایا، اس سے پاکی حاصل کر۔ اس نے دوبارہ پوچھا کہ کس طرح؟ آپ نے فرمایا سبحان اللہ! پاکی حاصل کر۔ پھر میں نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور کہا کہ اسے خون لگی ہوئی جگہوں پر پھیر لیا کر۔ (‌صحيح البخاري، حدیث 314)
مفتی صاحب! کیا یہ حدیث صحیح ہے اور اگر صحیح ہے تو اس کو آسان الفاظ میں بیان فرمادیں۔

جواب: واضح رہے کہ سوال میں پوچھی گئی حدیث بخاری شریف میں موجود ہے۔ بخاری کی اس حدیث میں حیض سے غسل کرنے کا مکمل طریقہ بتانا مقصود نہیں ہے، کیونکہ ناپاکی سے غسل کرنے کا طریقہ تو معروف ہے، اس کے بتانے کی ضرورت نہیں، بلکہ اس حدیث میں غسلِ حیض کے بعد ایک مخصوص کیفیت بتلانا مقصود ہے۔
اور وہ یہ ہے کہ حیض کے غسل میں پورے بدن پر پانی بہانے کے بعد مخصوص جگہ پر خوشبو استعمال کرے۔ چونکہ حیض کے خون میں ناگوار قسم کی بدبو ہوتی ہے، جس سے کراہیت ہوتی ہے، اس لیے حیض اور نفاس سے فارغ ہونے والی خواتین کے لیے مستحب یہ ہے کہ غسل کے بعد خاص جگہ پر خوشبو استعمال کرلیں تاکہ ناگوار بو ختم ہوجائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحیح البخاری: (كِتَاب الْحَيْضِ، بَابُ دَلْكِ الْمَرْأَةِ نَفْسَهَا إِذَا تَطَهَّرَتْ مِنَ الْمَحِيضِ، رقم الحدیث:314، ط: دار طوق النجاة)
حدثنا يحيى، قال: حدثنا ابن عيينة، عن منصور ابن صفية، عن امه، عن عائشة، ان امراة سالت النبي صلى الله عليه وسلم، عن غسلها من المحيض؟ فامرها كيف تغتسل، قال:" خذي فرصة من مسك فتطهري بها، قالت: كيف اتطهر؟ قال: تطهري بها، قالت: كيف؟ قال: سبحان الله تطهري، فاجتبذتها إلي، فقلت: تتبعي بها اثر الدم".

فتح الباري بشرح البخاري لابن حجر: (414/1-416 ط: المکتبة السلفیة)
قوله: (باب دلك المرأة نفسها. . إلى آخر الترجمة) قيل: ليس في الحديث ما يطابق الترجمة ; لأنه ليس فيه كيفية الغسل ولا الدلك. وأجاب الكرماني تبعا لغيره بأن تتبع أثر الدم يستلزم الدلك، وبأن المراد من كيفية الغسل الصفة المختصة بغسل المحيض وهي التطيب لا نفس الاغتسال . انتهى. وهو حسن على ما فيه من كلفة ،۔۔۔۔
قوله: (فأمرها كيف تغتسل قال: خذي) قال الكرماني هو بيان لقولها أمرها فإن قيل كيف يكون بيانا للاغتسال، والاغتسال صب الماء لا أخذ الفرصة؟ فالجواب أن السؤال لم يكن عن نفس الاغتسال ; لأنه معروف لكل أحد، بل كان لقدر زائد على ذلك . وقد سبقه إلى هذا الجواب الرافعي في شرح المسند، وابن أبي جمرة وقوفا مع هذا اللفظ الوارد مع قطع النظر عن الطريق التي ذكرناها عند مسلم الدالة على أن بعض الرواة اختصر أو اقتصر، والله أعلم. ۔۔۔۔
قال النووي: والمقصود باستعمال الطيب دفع الرائحة الكريهة على الصحيح . وقيل لكونه أسرع إلى الحبل. حكاه الماوردي قال: فعلى الأول إن فقدت المسك استعملت ما يخلفه في طيب الريح، وعلى الثاني ما يقوم مقامه في إسراع العلوق. وضعف النووي الثاني وقال: لو كان صحيحا لاختصت به المزوجة. قال: وإطلاق الأحاديث يرده، والصواب أن ذلك مستحب لكل مغتسلة من حيض أو نفاس، ويكره تركه للقادرة، فإن لم تجد مسكا فطيبا، فإن لم تجد فمزيلا كالطين وإلا فالماء كاف، وقد سبق في الباب قبله أن الحادة تتبخر بالقسط فيجزيها.

واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees