resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: "عورت پر خوشبو لگا کر باہر نکلنے سے غسل واجب ہونا" حدیث کی وضاحت (24840-No)

سوال: محترم مفتی صاحب! اللہ آپ کو خوش اور آباد رکھے۔ آمین
کسی نے بیان میں یہ کہا ہے کہ جو عورت خوشبو یا پرفیوم لگا کر گھر سے باہر جاتی ہے اور اس کی خوشبو غیر محرم لوگوں کو لگتی ہے تو اس عورت پر غسل واجب ہو جاتا ہے۔ یہ بات درست ہے یا غلط ہے؟

جواب: واضح رہے کہ عورت کا ایسی خوشبو لگا کر باہر نکلنا جس سے نامحرم لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں، جائز نہیں ہے۔ چنانچہ ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’ہر آنکھ زنا کار ہے اور عورت جب خوشبو لگا کر مجلس کے پاس سے گزرے تو وہ بھی ایسی ایسی ہے یعنی وہ بھی زانیہ ہے‘‘ (ترمذی، حدیث نمبر:2786)
اس کے باوجود عورت کے خوشبو لگاکر گھر سے باہر نکلنے سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں جو روایت پیش کی جاتی ہے: ”اس عورت کی نماز قبول نہیں کی جاتی جو اس مسجد میں آنے کے لیے خوشبو لگائے، جب تک واپس لوٹ کر جنابت کا غسل نہ کر لے“۔ (ابو داؤد، حدیث نمبر:4174)
اس روایت کا مقصد عورت کو خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلنے سے سختی سے منع کرنا ہے، چنانچہ اگر کسی عورت نے خوشبو لگائی ہوئی ہو اور اس کو گھر سے باہر جانا ہو تو جس طرح جنابت ہونے کی صورت میں غسل میں مبالغہ کرکے جنابت سے پاکی حاصل کی جاتی ہے، اسی طرح خوشبو لگائی ہوئی عورت گھر سے باہر جانے سے پہلے خوشبو کو زائل کرنے میں مبالغہ کرے، خوشبو زائل کیے بغیر اس کے لیے گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن الترمذی: (كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم،باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ خُرُوجِ الْمَرْأَةِ مُتَعَطِّرَةً، رقم الحدیث:2786، ط: دارالغرب الاسلامی)
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد القطان، عن ثابت بن عمارة الحنفي، عن غنيم بن قيس، عن ابي موسى، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " كل عين زانية، والمراة إذا استعطرت فمرت بالمجلس فهي كذا وكذا يعني زانية "، وفي الباب، عن ابي هريرة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.

سنن ابی داؤد: (كِتَاب التَّرَجُّلِ، باب مَا جَاءَ فِي الْمَرْأَةِ تَتَطَيَّبُ لِلْخُرُوجِ، رقم الحدیث:4174، ط: دارالرسالة العالمیة)
حدثنا محمد بن كثير، حدثنا سفيان، عن عاصم بن عبيد الله، عن عبيد مولى ابي رهم، عن ابي هريرة، قال: لقيته امراة وجد منها ريح الطيب ينفح ولذيلها إعصار، فقال: يا امة الجبار جئت من المسجد؟ قالت: نعم، قال: وله تطيبت؟ قالت: نعم، قال: إني سمعت حبي ابا القاسم صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا تقبل صلاة لامراة تطيبت لهذا المسجد حتى ترجع فتغتسل غسلها من الجنابة "، قال ابو داود: الإعصار غبار.

بذل المجهود في حل أبي داؤد:(باب في طيب المرأة للخروج،31/17،ط: رشیدیة)
وكتب مولانا محمد يحيى المرحوم من تقرير شيخه رضي الله عنه قوله : فتغتسل غسلها من الجنابة، وهو وإن لم يفدها في تلك الخرجة لكنه سيفيدها فيما بعدها من زوال الطيب، مع أن لها فيه جزاء ما صنعته، ومصادرة مالية حيث ذهب منها هذا القدر من الطيب، انتهى.

حاشية السندي علی النسائي: (153/5، ط: مكتب المطبوعات الإسلامية)
قوله فلتغتسل من الطيب ظاهره انها إذا أرادت الخروج إلى المسجد وهي قد استعملت الطيب في البدن فلتغتسل منه وتبالغ فيه كما تبالغ في غسل الجنابة حتى يزول عنها الطيب بالكلية ثم لتخرج ومثله قوله تعالى وإذا قرأت القرآن فاستعذ بالله لا أنها إذا خرجت بطيب ثم رجعت فعليها الغسل لذلك لكن رواية أبي داود ظاهرة في الثاني فقيل أمرها بذلك تشديدا عليها وتشنيعا لفعلها وتشبيها له بالزنى وذلك لأنها هيجت بالتعطر شهوات الرجال وفتحت باب عيونهم التي بمنزلة بريد الزنى فحكم عليها بما يحكم على الزاني من الاغتسال من الجنابة والله تعالى أعلم

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees