resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: وضو کے بعد چھینٹے مارنے کی روایت کی تحقیق (26986-No)

سوال: مفتی صاحب! کیا یہ حدیث ٹھیک ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جب پیشاب کرتے اور وضو کرتے تو شرمگاہ والی جگہ پر چھینٹیں مار لیتے؟

جواب: سوال میں ذکر کردہ روایت معمولی کلمات کی تبدیلی کے ساتھ متعدّدْ کتبِ حدیث میں وارد ہے:
1:السّنن لأبی داؤد (باب فی الانتضاح،رقم الحدیث:168)
2:جامع ترمذى:(باب في النضح بعد الوضوء،رقم الحدیث:50)
3:سنن النّسائی: (باب النضح،رقم الحدیث:135)
4: مسند الدّارمی:(باب فی نضح الفرج بعد الوضوء، رقم الحدیث:738)
سنن أبی داؤد کی حدیث مبارکہ کا ترجمہ یہ ہے کہ"رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور اپنی شرمگاہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔"
اسی طرح مصنَّف عبدُ الرَّزَّاق کی روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے حضرت عبداللّٰہ بن عبّاس رضی اللّٰہ عنہ کی خدمت میں یہ شکایت کی کہ بعض اوقات نماز کے دوران مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید میری اگلی شرمگاہ سے کچھ نکلا ہے،حضرت عبداللّٰہ بن عبّاس نے فرمایا "اللّٰہ تعالی شیطان کو برباد کرے، وہ انسان کی نماز کے دوران اس کی شرمگاہ کو چھوتا ہے تاکہ اسے یوں محسوس ہو کہ جیسے اس کا وضو ٹوٹ گیا ہے،جب تم وضو کرو تو اپنی شرم گاہ پر پانی چھڑک لو اور جب تمہیں یہ صورتحال محسوس ہوتو تم کہنا کہ یہ تو پانی ہے، اس شخص نے ایسا ہی کیا تو اس کی پریشانی ختم ہو گئی۔
وضاحت: فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ جس شخص کو پیشاب کے قطروں کا بار بار وسوسہ آتا ہو تو اسے چاہیے کہ وضو کرنے کے بعد اپنى شرمگاہ کے سامنے والےکپڑے کے حصے پر پانی کےدو تین چھینٹے مار دے۔ نیز یہ حکم صرف اس شخص کے لیے ہے جس کو وسوسہ آتا ہو، لیکن اگر کوئی شخص واقعی قطروں کا مریض ہو تو اس کے لیے یہ حکم نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ اچّھی طرح پیشاب کے قطروں سے پاک ہونے کا اطمینان کر لے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

السّنن لأبی داؤد: (باب فی الانتضاح،رقم الحدیث:168)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ الْمُهَاجِرِ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ الْحَكَمِ أَوِ ابْنِ الْحَكَمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَالَ ثُمَّ تَوَضَّأَ وَنَضَحَ فَرْجَهُ.

جامع ترمذى:(باب في النضح بعد الوضوء،رقم الحدیث:50)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ وَأَحْمَدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدِ اللَّهِ السَّلِيمِيُّ الْبَصْرِيُّ ، قَالَا : حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْهَاشِمِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " جَاءَنِي جِبْرِيلُ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، إِذَا تَوَضَّأْتَ فَانْتَضِحْ.

سنن النّسائی: (باب النضح،رقم الحدیث:135)
أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْأَحْوَصُ بْنُ جَوَّابٍ ، حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ح وَأَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا قَاسِمٌ وَهُوَ ابْنُ يَزِيدَ الْجَرْمِيُّ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ سُفْيَانَ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ، وَنَضَحَ فَرْجَهُ. قَالَ أَحْمَدُ فَنَضَحَ فَرْجَهُ.

مسند الدّارمی: (باب فی نضح الفرج بعد الوضوء، رقم الحدیث:738)
أَخْبَرَنَا قَبِيصَةُ ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ مَرَّةً مَرَّةً، وَنَضَحَ فَرْجَهُ.

مُصَنَّف عَبدُ الرَّزّاق:(ﺑﺎﺏ ﻗﻄﺮ اﻟﺒﻮﻝ ﻭﻧﻀﺢ اﻟﻔﺮﺝ ﺇﺫا ﻭﺟﺪ ﺑﻠﻼ،رقم الحدیث:583)
ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ، ﻋﻦ اﻟﺜﻮﺭﻱ، ﻋﻦ اﻷﻋﻤﺶ، ﻋﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﺟﺒﻴﺮ ﻭﻏﻴﺮﻩ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﻗﺎﻝ: ﺷﻜﺎ ﺇﻟﻴﻪ ﺭﺟﻞ ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻧﻲ ﺃﻛﻮﻥ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ ﻓﻴﺨﻴﻞ ﺇﻟﻲ ﺃﻥ ﺑﺬﻛﺮﻱ ﺑﻠﻼ ﻗﺎﻝ: " ﻗﺎﺗﻞ اﻟﻠﻪ §اﻟﺸﻴﻄﺎﻥ ﺇﻧﻪ ﻳﻤﺲ ﺫﻛﺮ اﻹﻧﺴﺎﻥ ﻓﻲ ﺻﻼﺗﻪ ﻟﻴﺮﻳﻪ ﺃﻧﻪ ﻗﺪ ﺃﺣﺪﺙ، ﻓﺈﺫا ﺗﻮﺿﺄﺕ ﻓﺎﻧﻀﺢ ﻓﺮﺟﻚ ﺑﺎﻟﻤﺎء، ﻓﺈﻥ ﻭﺟﺪﺕ ﻗﻠﺖ: ﻫﻮ ﻣﻦ اﻟﻤﺎء"، ﻓﻔﻌﻞ اﻟﺮﺟﻞ ﺫﻟﻚ ﻓﺬﻫﺐ.

بدائع الصّنائع: (33/1، ط: دار الكتب العلمية)
ولو توضأ، ثم رأى البلل سائلا من ذكره أعاد الوضوء لوجود الحدث، وهو سيلان البول، وإنما قال رآه سائلا لأن مجرد البلل يحتمل أن يكون من ماء الطهارة فإن علم أنه بول ظهر فعليه الوضوء، وإن لم يكن سائلا، وإن كان الشيطان يريه ذلك كثيرا، ولم يعلم أنه بول، أو ماء مضى على صلاته، ولا يلتفت إلى ذلك؛ لأنه من باب الوسوسة فيجب قطعها وقال النبي - صلى الله عليه وسلم - «إن الشيطان يأتي أحدكم فينفخ بين أليتيه فيقول أحدثت أحدثت، فلا ينصرف، حتى يسمع صوتا، أو يجد ريحا» .
وينبغي أن ينضح فرجه، أو إزاره بالماء إذا توضأ قطعا لهذه الوسوسة، حتى إذا أحس شيئا من ذلك أحاله إلى ذلك الماء وقد روي عن النبي - صلى الله عليه وسلم - «أنه كان ينضح إزاره بالماء إذا توضأ».

فتاوی رشیدیة: (ص: 296،ط:دار الاشاعت)

واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصّواب
دار الافتاء الاخلاص کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees