resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: حاطب بن ابی بلتعہؓ کے قصہ میں حدیثوں کے الفاظ میں تطبیق (24820-No)

سوال: ایک واقعہ کا مفہوم ہے کہ مسلمانوں کے اور کافروں کے درمیان لڑائی تھی تو مسلمانوں کی طرف سے ایک صحابی نے ایک خط لکھا اور وہ خط ایک عورت کو دیا کہ یہ جا کر کافروں کو دے دو تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے یہ سارا واقعہ بتادیا، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے علی فلاں جگہ پہ کھڑے ہو اور ایک عورت آئے گی، اس کی یہ شان و شوکت ہوگی، اس کے پاس خط ہوگا، اس سے وہ خط لے آنا۔ علی رضی اللہ عنہ اس مقام پہ گئے اور وہاں جا کر کھڑے ہوئے تو وہ عورت اسی شان و شوکت میں آئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کو پکڑا اور اس سے کہا کہ آپ کے پاس خط ہے وہ مجھے دو، اس نے کہا میرے پاس خط نہیں ہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے تلاشی لی تو اس سے خط ثابت نہیں ملا۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ خط مجھے تم سے لینا ہے اور تمہارے پاس ہے کیونکہ میرے نبی نے فرمایا کہ تمہارے پاس خط ہے اور تم کہہ رہی ہے کہ میرے پاس خط نہیں ہے، میں تمہارے کپڑے اتار دوں گا اور تمہیں ننگا کر دوں گا، لہذا مجھے خط دے دو تو اس عورت نے جب دیکھا کہ یہ جو مجھے چھوڑنے والا نہیں ہے تو اس اپنے بالوں میں سے خط نکالا اور علی رضی اللہ عنہ کو دیا تو علی رضی اللہ عنہ نے وہ خط اس عورت سے لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا۔
یہ واقعہ ہم نے پہلے سنا تھا کہ اس عورت نے یہ خط بالوں میں رکھا ہوا تھا اور ابھی یہ سنا ہے کہ نیفے میں تھا، پہلے علی رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے سنا تھا اور اب عمر رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے سنا ہے۔ اس کی ذرا تحقیق فرمادیں۔

جواب: سوال میں ذکر کردہ واقعہ صحیح بخاری میں حضرت علی رضی اللہ عنه سے منقول ہے، اور یہ واقعہ صحیح بخاری میں ہی دونوں طرح کے الفاظ حجزة (ازار بند) اور عقاص (سر کے بالوں کی چوٹی) کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔ شارحینِ حدیث نے ان دونوں الفاظوں میں تین تطبیقات ذکر کی ہیں، جو درج ذیل ہیں:
(1) اس عورت نے خط کو ازار بند سے نکال کر بالوں میں چھپالیا یا اس کا برعکس کیا۔
(2) اس عورت کے سر کی چوٹی اتنی لمبی تھی کہ وہ ازار بند باندھنے کی جگہ تک پہنچتی تھی، اس عورت نے اپنے لمبے بالوں کے آخر میں اس خط کو باندھ کر کمر پر رکھ لیا۔ فتح الباری میں ابن حجرؒ نے اس قول کو راجح قرار دیا ہے۔
(3) اس خاتون کے حوالے دو خط کیے گئے تھے، جن میں ایک خط سر کے بالوں میں اور دوسرا ازار بند کے اندر رکھا تھا۔
ذیل میں صحیح بخاری کی پوری حدیث کا ترجمہ ذکر کیا جاتا ہے:
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے، ابومرثد رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہم پر بھیجا۔ ہم سب شہسوار تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ سیدھے چلے جاؤ۔ جب روضہ خاخ پر پہنچو تو وہاں تمہیں مشرکین کی ایک عورت ملے گی، وہ ایک خط لیے ہوئے ہے جسے حاطب بن ابی بلتعہ نے مشرکین کے نام بھیجا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس جگہ کا پتہ دیا تھا، ہم نے وہیں اس عورت کو ایک اونٹ پر جاتے ہوئے پا لیا۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط دے دو۔ وہ کہنے لگی کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بیٹھا کر اس کی تلاشی لی تو واقعی ہمیں بھی کوئی خط نہیں ملا، لیکن ہم نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی، خط نکال ورنہ ہم تجھے ننگا کر دیں گے۔ جب اس نے ہمارا یہ سخت رویہ دیکھا تو ازار باندھنے کی جگہ کی طرف اپنا ہاتھ لے گئی وہ ایک چادر میں لپٹی ہوئی تھی اور اس نے خط نکال کر ہم کو دے دیا، ہم اسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس نے (یعنی حاطب بن ابی بلتعہ نے) اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے دغا کی ہے، آپ مجھے اجازت دیں تاکہ میں اس کی گردن مار دوں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا؟ حاطب رضی اللہ عنہ بولے: اللہ کی قسم! یہ وجہ ہرگز نہیں تھی کہ اللہ اور اس کے رسول پر میرا ایمان باقی نہیں رہا تھا، میرا مقصد تو صرف اتنا تھا کہ قریش پر اس طرح میرا ایک احسان ہو جائے اور اس کی وجہ سے وہ (مکہ میں باقی رہ جانے والے) میرے اہل و عیال کی حفاظت کریں۔ آپ کے اصحاب میں جتنے بھی حضرات (مہاجرین) ہیں، ان سب کا قبیلہ وہاں موجود ہے اور اللہ ان کے ذریعے ان کے اہل و مال کی حفاظت کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے سچی بات بتا دی ہے اور تم لوگوں کو چاہیے کہ ان کے متعلق اچھی بات ہی کہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پھر عرض کیا کہ اس شخص نے اللہ، اس کے رسول اور مسلمانوں سے دغا کی ہے، آپ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ کیا یہ بدر والوں میں سے نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل بدر کے حالات کو پہلے ہی سے جانتا تھا اور وہ خود فرما چکا ہے کہ ”تم جو چاہو کرو، تمہیں جنت ضرور ملے گی۔“ (یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ) میں نے تمہاری مغفرت کر دی ہے، یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر:3983)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحیح البخاری: (كِتَاب الْمَغَازِي، بَابُ فَضْلُ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا:، رقم الحدیث: 3983، ط: دار طوق النجاة)
حدثني إسحاق بن إبراهيم، اخبرنا عبد الله بن إدريس، قال: سمعت حصين بن عبد الرحمن، عن سعد بن عبيدة، عن ابي عبد الرحمن السلمي، عن علي رضي الله عنه، قال:" بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم وابا مرثد الغنوي , والزبير بن العوام وكلنا فارس، قال:" انطلقوا حتى تاتوا روضة خاخ فإن بها امراة من المشركين معها كتاب من حاطب بن ابي بلتعة إلى المشركين" , فادركناها تسير على بعير لها حيث قال رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقلنا: الكتاب، فقالت: ما معنا كتاب , فانخناها , فالتمسنا فلم نر كتابا، فقلنا: ما كذب رسول الله صلى الله عليه وسلم لتخرجن الكتاب او لنجردنك , فلما رات الجد اهوت إلى حجزتها وهي محتجزة بكساء فاخرجته, فانطلقنا بها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال عمر: يا رسول الله قد خان الله ورسوله والمؤمنين فدعني فلاضرب عنقه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ما حملك على ما صنعت"، قال حاطب: والله ما بي ان لا اكون مؤمنا بالله ورسوله صلى الله عليه وسلم , اردت ان يكون لي عند القوم يد يدفع الله بها عن اهلي ومالي , وليس احد من اصحابك إلا له هناك من عشيرته من يدفع الله به عن اهله وماله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" صدق ولا تقولوا له إلا خيرا"، فقال عمر: إنه قد خان الله ورسوله والمؤمنين فدعني فلاضرب عنقه، فقال:" اليس من اهل بدر"، فقال:" لعل الله اطلع إلى اهل بدر فقال: اعملوا ما شئتم فقد وجبت لكم الجنة , او فقد غفرت لكم" , فدمعت عينا عمر، وقال: الله ورسوله اعلم.

وایضا: (كِتَاب الْمَغَازِي، بَابُ غَزْوَةِ الْفَتْحِ، رقم الحدیث: 4274، ط: دار طوق النجاة)
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، قال: اخبرني الحسن بن محمد، انه سمع عبيد الله بن ابي رافع، يقول:سمعت عليا رضي الله عنه، يقول: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم انا والزبير , والمقداد، فقال:" انطلقوا حتى تاتوا روضة خاخ، فإن بها ظعينة معها كتاب فخذوا منها"، قال: فانطلقنا تعادى بنا خيلنا حتى اتينا الروضة فإذا نحن بالظعينة قلنا لها: اخرجي الكتاب، قالت: ما معي كتاب، فقلنا: لتخرجن الكتاب او لنلقين الثياب، قال: فاخرجته من عقاصها، فاتينا به رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا فيه من حاطب بن ابي بلتعة إلى ناس بمكة من المشركين يخبرهم ببعض امر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا حاطب، ما هذا؟"، قال: يا رسول الله، لا تعجل علي، إني كنت امرا ملصقا في قريش يقول: كنت حليفا ولم اكن من انفسها، وكان من معك من المهاجرين من لهم قرابات يحمون اهليهم واموالهم، فاحببت إذ فاتني ذلك من النسب فيهم ان اتخذ عندهم يدا يحمون قرابتي , ولم افعله ارتدادا عن ديني ولا رضا بالكفر بعد الإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما إنه قد صدقكم"، فقال عمر: يا رسول الله، دعني اضرب عنق هذا المنافق، فقال:" إنه قد شهد بدرا، وما يدريك لعل الله اطلع على من شهد بدرا، فقال: اعملوا ما شئتم، فقد غفرت لكم، فانزل الله السورة: يايها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم اولياء تلقون إليهم بالمودة وقد كفروا بما جاءكم من الحق إلى قوله فقد ضل سواء السبيل سورة الممتحنة آية 1.

فتح الباري: (رقم الحدیث: 3081، 191/6، ط: المكتبة السلفية)
وتقدم في باب الجاسوس أنها أخرجته من عقاصها، وجمع بينهما بأنها أخرجته من حجزتها فأخفته في عقاصها ثم اضطرت إلى إخراجه أو بالعكس، أو بأن تكون عقيصتها طويلة بحيث تصل إلى حجزتها فربطته في عقيصتها وغرزته بحجزتها وهذا الاحتمال أرجح.
وأجاب بعضهم باحتمال أن يكون معها كتابان إلى طائفتين، أو المراد بالحجزة العقدة مطلقا، وتكون رواية العقيصة أوضح من رواية الحجزة، أو المراد بالحجزة الحبل؛ لأن الحجز هو شد وسط يدي البعير بحبل، ثم يخالف فتعقد رجلاه، ثم يشد طرفاه إلى حقويه، ويسمى أيضا الحجاز.

عمدۃ القاری: (سورة الممتحنة، 229/19، دار احیاء التراث العربی)
قوله: (محتجزة) أي: شادة، كساها على وسطها. فإن قلت: تقدم في الجهاد أنها أخرجته من العقاص، لا من الحجزة؟ قلت: الحجزة هي المعقدة مطلقا۔

مرقاۃ المفاتیح: (باب جامع المناقب، 4012/9، ط: دار الفکر بیروت)
قوله: (فأخرجته من عقاصها)، وهو بكسر العين جمع عقيصة، وهي الشعر المضفور. قال العسقلاني: والجمع بينه وبين رواية:"أخرجته من حجزتها" -بضم الحاء وسكون الجيم وبالزاي أي: معقد الإزار- لأن عقيصتها طويلة، بحيث تصل إلى حجزتها، فربطته في عقيصتها وغرزته بحجزتها ۔

شرح سنن ابن أبي داود لابن ارسلان: (باب في حُكْمِ الجاسوسِ إِذا كانَ مُسْلِمًا، 424/11، عمدة الفلاح، دار البحث العلمی)
وفي رواية للبخاري: "فأخرجته من حُجْزتها". بضم الحاء وإسكان الجيم، وهو معقد السراويل. والجمع بين الروايتين أنه كان فيها كتابان، أو أخرجته من الحجزة أولاً ثم أخفته في عقاصها، ثم اضطرت إلى الإخراج منهما۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees