سوال:
زندہ حیوان کے گوشت کی بیع ذبح سے قبل جائزہے یا ناجائز یعنی بائع اورمشتری کے درمیان زندہ جانور کے گوشت کی ایک قیمت متعین ہو جاتی ہے اور ذبح کے بعد جتنا گوشت ہوتا ہے وہ مشتری لے لیتا ہے، اب چاہے گوشت خراب نکلے یا صحیح مشتری کو ضرورلینا پڑے گا، بیع فسخ کرنے کا اختیار مشتری کے پاس نہیں ہوگا، اگر گوشت خراب نکلے اور مشتری نہ لینا چاہے تو بائع اس سے جھگڑا کرتا ہے کہ بھائی آپ نے مجھ سے جانور ذبح کرادیا اور اب خریداری نہیں کرتے تو کیا اس طرح کا معاملہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: ذبح سے پہلے زندہ جانور کی خرید و فروخت تو درست ہے، البتہ اس کے گوشت کی خرید و فروخت درست نہیں ہے، کیونکہ ذبح سے پہلے یقینی طور پر نہیں معلوم کہ کتنا گوشت نکلے گا اور صحیح ہوگا یا خراب ہوگا، اور یہ بات بعد میں نزاع اور جھگڑے کا باعث بن سکتی ہے،(جیساکہ سوال میں مذکور ہے) اس لئے زندہ جانور کے گوشت کی خرید و فروخت سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (139/5، ط: دار الکتب العلمیة)
ولا يجوز بيع الدقيق في الحنطة، والزيت في الزيتون، والدهن في السمسم، والعصير في العنب، والسمن في اللبن، ويجوز بيع الحنطة، وسائر الحبوب في سنابلها؛ لأن بيع الدقيق في الحنطة، والزيت في الزيتون، ونحو ذلك بيع المعدوم؛ لأنه لا دقيق في الحنطة، ولا زيت في الزيتون؛ لأن الحنطة اسم للمركب والدقيق اسم للمتفرق، فلا دقيق في حال كونه حنطة، ولا زيت حال كونه زيتونا، فكان هذا بيع المعدوم، فلا ينعقد بخلاف بيع الحنطة في سنبلها؛ لأن ما في السنبل حنطة، إذ هي اسم للمركب وهي في سنبلها على تركيبها فكان بيع الموجود ... وكذا بيع البزر في البطيخ الصحيح؛ لأنه بمنزلة الزيت في الزيتون، وبيع النوى في التمر، وكذلك بيع اللحم في الشاة الحية؛ لأنها إنما تصير لحما بالذبح، والسلخ فكان بيع المعدوم فلا ينعقد.
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر: (56/2، ط: دار احیاء التراث العربی)
(ولا) يجوز (بيع اللحم في الشاة) لاحتمال أن يكون مهزولا أو سمينا فيفضي إلى النزاع.
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی