سوال:
مفتی صاحب! پوچھنا یہ ہے کہ آج کل جو آن لائن کام نیٹ پر ہو رہا ہے، جس میں لوگ مختلف پیکیجز میں پیسے لگاتے ہیں، جیسے کسی نے 11400 روپے لگائے، پھر اسے اشتہارات (Ads) دیکھنے ہوتے ہیں، اور روزانہ 10 اشتہارات دیکھنے پر 370 روپے ملتے ہیں۔
ان کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ جب آپ کو ایک سال مکمل ہو جائے گا تو آپ نے جو انویسٹمنٹ کی ہے، یعنی شروع میں جو پیسے لگائے تھے، وہ آپ کے اکاؤنٹ میں واپس آ جائیں گے تو کیا اس طرح کا کام اسلام کے لحاظ سے درست ہے یا کہیں یہ سود یا کسی اور حرام چیز میں تو نہیں آتا؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ ایسی کمپنیوں کے آن لائن (Online) اشتہارات دیکھنا جن کا اصل کام/کاروبار جائز ہو، اور اشتہارات میں بھی کوئی غیر شرعی خرابی مثلاً: میوزک اور خواتین کی تصاویر اور ویڈیوز وغیرہ نہ ہوں تو ان کو دیکھنے کے عوض حاصل ہونے والی کمائی کو ناجائز یا حرام نہیں کہا جائے گا۔
لیکن مروّجہ اشتہارات میں عموماً اس کا لحاظ نہیں رکھا جاتا، بلکہ ہرقسم کی کمپنی کے جائز و ناجائز ہر طرح کے اشتہارات چلائے جاتے ہیں، نیز اشتہارات چلانے والی کمپنیاں اپنی ویب سائٹ پر مصنوعی ٹریفک بڑھانے کیلئے کرایہ پر لوگوں سے اشتہارات کلک کرواکے اصل اشتہار دینے والی کمپنیوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہمیں اتنے لوگ دیکھتے ہیں، جو آپ کا اشتہار دیکھ کر چیزیں خرید سکتے ہیں، جبکہ یہ حقیقت کے خلاف ہے کہ اشتہار دیکھنے والے اصل خریدار یا کسٹمر نہیں ہوتے بلکہ کرایہ پر کام کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔
لہذا ناجائز امور جیسے: خواتین کی تصاویر٬ ویڈیوز یا میوزک وغیرہ پر مشتمل اشتہارات اور ناجائز کاروبار کرنے والی کمپنیوں کے اشتہارات دیکھ کر کمائی حاصل کرنا جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الموسوعة الفقهية الكويتية: (290/1)
الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لا يستحق به أجرة . ولا يجوز استئجار كاتب ليكتب له غناءً ونوحاً ؛ لأنه انتفاع بمحرم ... ولا يجوز الاستئجار على حمل الخمر لمن يشربها ، ولا على حمل الخنزير
مجلة الاحکام العدلیة: (16/1، ط: نور محمد)
المادۃ 3: العبرۃ فی العقود للمقاصد و المعانی لا للالفاظ و المبانی.
فقه البیوع: (325/1، ط: مکتبة معارف القرآن)
ولكن معظم استعمال التلفزيون في عصرنا في برامج لاتخلو من محظور شرعي، وعامة المشترين يشترونه لهذه الأغراض المحظورة من مشاهدة الأفلام والبرامج الممنوعة، إن كان هناك من لا يقصد به ذلك. فبما أن غالب استعماله في مباح ممكن فلا نحكم بالكراهة التحريمنية في بيعه مطلقا، إلا إذا تمحض لمحظور، ولكن نظرا إلى أن معظم استعماله لا يخلو من كراهة تنزيهية . وعلى هذا فينبغي أن يتحوط المسلم في اتخاذ تجارته مهنة له في الحالة الراهنة إلا إذا هيأ الله تعالی جوا يتمحض أو يكثر فيه استعماله المباح
تبویب الفتاوی جامعہ دارالعلوم کراچی: رقم الفتوی 13/1350)
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص، کراچی