سوال:
میرا ایک سوال ہے کہ اگر ہم کچھ غیر ملکی کمپنیوں جیسا کہ ایمازون وغیرہ کے ساتھ کام کرتے ہیں جو کہ لوگوں کو اپنی پراڈکٹ سیل کرنے پر ہمیں کمیشن دیتی ہے، اگر ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ وہ سرمایہ کن ذرائع سے لاتے ہیں اور اس کا پرافٹ کس کام کے لیے استعمال ہوتا ہے تو کیا ہمارا ان کے ساتھ کام کرنا جائز ہے؟ اور جو لوگ وہاں مثال کے طور پر امریکہ، چائنہ یا دوسرے ممالک میں رہ کر ان ممالک سے تجارت کر رہے ہیں، جہاں کی گورنمنٹ مختلف مسلمان ممالک میں ظلم کرنے میں بلواسطہ یا بلا واسطہ شامل ہو تو کیا ہم بھی تجارتی معاملات کرکے ظلم میں معاون ہوں گے؟
جواب: واضح رہے کہ شرعاً کسی کمپنی کے حلال پروڈکٹ کو فروخت کرکے طے شدہ کمیشن لینا جائز ہے، لہذا ایمازون وغیرہ کمپنیوں سے شرعی اصولوں کے مطابق جائز چیزوں کی تجارت کرنا اور جائز چیزیں فروخت کرکے اس کے عوض کمیشن لینا جائز ہے۔
جہاں تک غیر مسلم ممالک کی کمپنیوں کے ساتھ تجارت کرنے کا تعلق ہے، تو اس کا حکم یہ ہے کہ جس کمپنی کے بارے میں حتمی طور پر معلوم ہو کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ظلم وستم میں معاونت کرتی ہے، تو ایسی کمپنی کے ساتھ تجارت یا کاروباری سرگرمی کرنا "تعاون علی الاثم" (گناہ کے کام میں معاونت) کی وجہ سے "سداً للذرائع" شرعا ممنوع ہوگا، البتہ جس کمپنی کے بارے میں یہ بات حتمی طور پر معلوم نہ ہو تو ان کے ساتھ شرعی اصولوں کے مطابق جائز اشیاء کی تجارت کرنا شرعا درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (کتاب البیوع، رقم: 2216)
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ : كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ مُشْرِكٌ مُشْعَانٌّ طَوِيلٌ بِغَنَمٍ يَسُوقُهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " بَيْعًا أَمْ عَطِيَّةً ؟ " أَوْ قَالَ : " أَمْ هِبَةً ؟ " قَالَ : لَا، بَلْ بَيْعٌ. فَاشْتَرَى مِنْهُ شَاةً.
شرح السير الكبير: (باب هدية اهل الحرب، 1242)
ولابأس بان يبيع المسلمون من المشركين ما بدأ لهم من الطعام والثياب وغير ذلك الا السلاح والكراع
عمدۃ القاری: (کتاب الاجارۃ، 94/12، ط: دارا الاحیاء التراث العربی)
وقال المهلب: كره أهل العلم ذلك إلا للضرورة بشرطين: أحدهما: أن يكون عمله فيما يحل للمسلم، والآخر: أن لا يعينه على ما هو ضرر على المسلمين،
رد المحتار: (مَطْلَبٌ فِي أُجْرَةِ الدَّلَّالِ، 63/6، ط: سعید)
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی