عنوان: تفویض طلاق کے بعد شوہر کا طلاق دینے کا حکم(10550-No)

سوال: میرے شوہر نے مجھے ایک طلاق دے کر فورا رجوع کرلیا، پھر ایک سال بعد دو طلاق کا حق تفویض کیا، پھر ایک جرگہ میں دو طلاق دیں، پھر کہا کہ میرے کہنے سے کچھ نہیں ہوگا، طلاق دینے کا اختیار میرے پاس نہیں ہے، نہ میں اس کا حق سمجھتا ہوں، کہتا ہے کہ میرے کہنا ایسا ہے جیسے بیوی کہتی رہے، طلاق کا حق بیوی کو دیا ہے، پھر میں نے بھی کہا کہ یہ مجھ سے فارغ ہے، کیا طلاق ہوگئی ہے؟ اب ہم رجوع کرنا چاہتے ہیں، کیا ہمارا نکاح باقی ہے؟

جواب: شریعت میں طلاق دینے کا اصل اور مستقل اختیار مرد کو حاصل ہے، اگر مرد چاہے تو اپنا یہ اختیار بیوی یا کسی دوسرے شخص کو دے سکتا ہے، اس کو فقہی اصطلاح میں ''تفویضِ طلاق'' کہا جاتا ہے۔
لیکن "تفویضِ طلاق" کے باوجود بھى شوہر کے پاس طلاق کا اختیار بدستور برقرار رہتا ہے، لہذا شوہر اگر اپنی بیوی کو "تفویضِ طلاق" کے بعد طلاق دیدے تو وہ طلاق بھى واقع ہوجاتی ہے۔
سوال میں بیان کردہ صورت اگر واقعى درست ہے کہ شوہر نے پہلے ایک طلاق دے کر عدت میں رجوع کرلیا تھا، پھر شوہر کے "تفویض طلاق" کے بعد جرگہ میں دو طلاقیں دینے سے باقی ماندہ دو طلاقیں بھی واقع ہو گئیں ہیں۔
چونکہ شوہر نے تین مرتبہ طلاق دیدی ہے، اس لیے دونوں میاں بیوی کے درمیان حرمت مغلظہ ثابت ہوگئی ہے، اب ان دونوں میاں بیوی میں رجوع نہیں ہو سکتا، البتہ اگر عورت پہلے شوہر کی عدت گزار کر کسی اور مرد سے نکاح کرے، اور اس سے ازدواجی تعلقات قائم کرے، پھر وہ اسے طلاق دیدے یا اس کا انتقال ہو جائے، اس کے بعد وہ عورت عدت گزار کر پہلے شوہر سے نئے مہر اور گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرنا چاہے تو نکاح کرسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن ابن ماجه: (كتاب الطلاق، باب طلاق العبد، رقم الحدیث: 2072)
"عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَتَى النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ سَيِّدِى زَوَّجَنِى أَمَتَهُ، وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنِى وَبَيْنَهَا. قَالَ: فَصَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: الْمِنْبَرَ فَقَالَ: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَا بَالُ أَحَدِكُمْ يُزَوِّجَ عَبْدَهُ أَمَتَهُ ثُمَّ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَهُمَا إِنَّمَا الطَّلاَقُ لِمَنْ أَخَذَ بِالسَّاقِ".

الدر المختار مع رد المحتار: (36/3، ط: دار الفكر)
"قال لها أنت طالق إن شئت فقالت شئت إن شئت أنت، فقال: شئت ينوي الطلاق أو قالت شئت إن كان كذا لمعدوم) أي لم يوجد بعد كإن شاء أبي أو إن جاء الليل وهي في النهار (بطل) الأمر لفقد الشرط..(وإن قالت شئت إن كان الأمر قد مضى) أراد بالماضي المحقق وجوده كإن كان أبي في الدار وهو فيها، أو إن كان هذا ليلا وهي فيه مثلا (طلقت) لأنه تنجيز (قال لها أنت طالق متى شئت أو متى ما شئت أو إذا شئت أو إذا ما شئت فردت الأمر لا يرتد ولا يتقيد بالمجلس ولا تطلق) نفسها".

المحيط البرهاني: (239/3، ط: دار الكتب العلمية)
"والأصل في هذا: أن الزوج يملك إيقاع الطلاق بنفسه فيملك التفويض إلى غيره فيتوقف عمله على العلم؛ لأن تفويض طلاقها إليها يتضمن معنى التمليك، لأنها فيما فوض إليها من طلاقها عاملة لنفسها دون الزوج، والإنسان فيما يعمل لنفسه يكون مالكا".

الفتاوى الهندية: (الباب الثالث فی تفویض الطلاق، 388/1، ط: دار الفکر)
"ثم لا بد من النية في قوله اختاري فإن اختارت نفسها في قوله اختاري كانت واحدة بائنة ولا تكون ثلاثا وإن نوى الزوج ذلك كذا في الهداية فإذا اختارت نفسها فأنكر قصد الطلاق فالقول له مع يمينه أما إذا خيرها بعد مذاكرة الطلاق فاختارت نفسها ثم قال لم أنو الطلاق لم يصدق في القضاء وكذا إذا كانا في غضب وإذا لم يصدق في القضاء لا يسع المرأة أن تقيم معه إلا بنكاح مستقبل كذا في فتح القدير ۔۔۔ وكذا قولها أختار أبي أو أمي أو أهلي أو الأزواج يغني عن ذكر النفس كذا في التبيين ۔۔۔".

والله تعالى أعلم بالصواب
دارالإفتاء الإخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 747 May 24, 2023
tafweeze / tafweezey talaq k bad shohar / khawand /mia ka talaq dene / deney ka hokom /hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.