سوال:
بائیس سال قبل ایک شخض کا انتقال ہوا، انتقال کے وقت ان کی بیوی، پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے حیات تھے، لیکن تقسیم کی نادرستگی کی وجہ سے اب وارثین دوبارہ تقسیم چاہتے ہیں، البتہ اب مرحوم کی بیوی حیات نہیں ہے۔ کیا بیوی کو ملنے والا حصہ ان کی اولاد کی طرف منتقل ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ اگر مرحوم والد کی جائیداد شرعی طور پر صحیح تقسیم نہ ہوئی ہو تو ورثاء پر مرحوم کی میراث کو از سر نو شرعی طریقے پر تقسیم کرنا ضروری ہے۔
سوال میں پوچھی گئی صورت میں والدہ کے انتقال کے وقت اگر ان کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک زندہ نہ ہو تو والدہ کی کل میراث ان کی اولاد میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاء فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَد....الخ
بدائع الصنائع: (فصل في صفات القسمة، 26/7، ط: دار الكتب العلمية)
وأما صفات القسمة فأنواع: منها أن تكون عادلة غير جائرة وهي أن تقع تعديلا للأنصباء من غير زيادة على القدر المستحق من النصيب ولا نقصان عنه؛ لأن القسمة إفراز بعض الأنصباء، ومبادلة البعض، ومبنى المبادلات على المراضاة، فإذا وقعت جائرة؛ لم يوجد التراضي، ولا إفراز نصيبه بكماله؛ لبقاء الشركة في البعض فلم تجز وتعاد.
وعلى هذا إذا ظهر الغلط في القسمة المبادلة بالبينة أو بالإقرار تستأنف؛ لأنه ظهر أنه لم يستوف حقه، فظهر أن معنى القسمة لم يتحقق بكماله.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی