عنوان: میاں بیوی کے درمیان شرط کے وقوع میں اختلاف اور شوہر کا تین مرتبہ بیوی کو "میں نے آپ کو چھوڑ دیا" کہنے کا حکم (10560-No)

سوال: 22 مئی 2023 کی شام کو ہم میاں بیوی آپس میں عام گفتگو کر رہے تھے، اسی دوران میری بیوی نے مجھے کہا کہ میں اپنی بھانجی کی شادی میں جاؤں گی تو میں نے انہیں کہا کہ کب جاؤگی؟ تو اس نے کہا کہ میں جب بھی جاؤں مجھے کسی کا باپ بھی نہیں روک سکتا ہے تو میں نے اسے کہا کہ میں آپ کو روکوں گا، حالانکہ اس دوران میں ہنس بھی رہا تھا مگر میری بیوی بہت غصے میں آچکی تھی اور مزید آگے چل کر باتوں باتوں میں مجھے بیوی نے کہا کہ مجھے چھوڑ کیوں نہیں دیتے ہو؟ تو میں نے بھی ہنسی ہنسی میں کہہ دیا کہ میں نے آپ کو چھوڑ دیا ہے، جب میں نے ایک مرتبہ اسی طرح کہا تو پھر میری بیوی نے مجھے کہا کہ تین مرتبہ کیوں نہیں کہہ دیتے ہو؟ تو پھر میں نے اوپر مذکورہ الفاظ چھوڑنے والے اس طرح تین مرتبہ دہرائے، حالانکہ مجھے اس چیز کا علم نہیں تھا کہ ان الفاظوں کی وجہ سے طلاق واقع ہوجاتی ہے یا نہیں، میں نے تو ایسے ہی ہنسی مذاق میں یہ الفاظ تین مرتبہ کہہ دئے تھے، پھر میری بیوی نے مجھے کہا کہ سیدھی طلاق کیوں نہیں دے دیتے ہو تو اس دوران میں نے اسے کچھ بھی نہیں کہا اور خاموش ہوگیا۔
اسی طرح اس سے ایک سال پہلے میری بیوی گھر سے روٹھ کر اپنے والدین کے پاس چلی گئی تھی تو میں نے اسے کہا تھا کہ میں تمہیں آخری موقع دیتا ہوں کہ اس اتوار تک سکھر پہنچو نہیں تو میری طرف سے تمہیں طلاق ہے، تم آزاد ہوجاؤگی، پھر میں تمہیں کچھ بھی نہیں کہوں گا تو اس وقت اس اتوار کو میری بیوی گھر نہیں پہنچی تھی تو پھر دوبارہ میں نے اسے اسی طرح منگل کے دن کی طلاق کے لیے کہا اگر منگل تک نہیں پہنچی تو تمہیں طلاق ہے، مگر میری بیوی منگل کے دن مغرب کے وقت گھر پہنچ گئی تھی۔
براہ کرم اس مسئلے کے بارے میں رہنمائی فرمادیں کہ ہماری طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟ اور اگر ہوگئی ہے تو کتنی ہوگئی ہیں؟
تنقیح: محترم آپ اس بات کی وضاحت فرمائی کہ آپ نے اپنی بیوی کو جو یہ کہا: "میں نے آپ کو چھوڑ دیا" یہ واقعہ اور دوسرا واقعہ جس میں آپ نے اپنی بیوی کو یہ کہا: اتوار تک گھر پہنچ جائیں ورنہ طلاق ہو گی، ان دونوں میں سے کون سا واقعہ پہلے پیش آیا اور کون سا بعد میں پیش آیا ہے اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جائے گا۔
دارالافتاء الاخلاص،کراچی
جواب تنقیح:
مستفتی سے مذکورہ مسئلے کے متعلق چند امور ثابت ہوئے:
1۔ اتوار والی طلاق اور 22 مئی کے واقعہ کے درمیان ایک سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔
2۔ اتور والی طلاق کے بعد شوہر نے رجوع کیا ہے۔
3۔ منگل کے دن شوہر کے بیان کے مطابق میاں بیوی دونوں گھر کے سیڑھی پر چڑھ رہے تھے کہ مغرب کی آذان شروع ہو گئی ، جبکہ بیوی کے بیان کے مطابق بیوی سکھر شہر میں داخل ہوئی، پھر مغرب کی آذان شروع ہو گئی۔

جواب: سوال میں بیان کی گئی تفصیلات اگر واقعی حقیقت پر مبنی ہیں، تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس مسئلے میں بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، جس کے نتیجے میں دونوں میاں بیوی کا نکاح ختم ہو کر حرمت مغلظہ ثابت ہو گئی ہے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اگر شوہر طلاق کو کسی شرط پر معلق کرتا ہے، تو اس شرط کے پائے جانے کی صورت میں اس کی بیوی پر طلاق واقع ہو جاتی ہے، لہذا سوال میں بیان کردہ تفصیل کے مطابق بیوی جب اپنے میکے میں تھی اور شوہر نے اپنی بیوی سے کہا: "اتوار تک سکھر پہنچو نہیں تو میری طرف سے تمہیں طلاق ہے، تم آزاد ہو جاؤ گی، پھر میں تمہیں کچھ بھی نہیں کہوں گا" اس کے بعد بیوی اتوار کو گھر واپس نہیں آئی، تو شرط پائے جانے کی وجہ سے اس پر ایک طلاق رجعی واقع ہو گئی، بقیہ دو جملے "تم آزاد ہو جاؤ گی، پھر میں تمہیں کچھ بھی نہیں کہوں گا" ان جملوں سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، یہ جملے طلاق رجعی کے نتیجے کے طور پر شمار ہوں گے۔
پھر شوہر کے بیان کے مطابق اس نے اتوار والی طلاق کے بعد رجوع کر لیا ہے، اس کے بعد شوہر کو دو طلاقوں کا اختیار تھا، پھر جب اس نے اپنی بیوی کو کہا: "اگر منگل تک نہیں پہنچی تو تمہیں طلاق ہے"، اس جملے کے بعد بیوی منگل کے دن مغرب کے وقت آ گئی، اب گھر پہنچنے پر میاں بیوی کے درمیان اختلاف ہے، بیوی کا دعویٰ ہے کہ وہ مغرب کے وقت سکھر شہر میں داخل ہوئی، گھر مغرب کے بعد پہنچی ہے، جبکہ شوہر اس کا انکار کر رہا ہے کہ وہ مغرب کے وقت گھر میں پہنچ گئی تھی، اب اگر بیوی اپنے دعوے کو دو مرد گواہوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کے ذریعے ثابت کر دے، تو اس صورت میں اس پر دوسری طلاق واقع ہو گئی، اس کے بعد شوہر کو صرف ایک طلاق کا اختیار باقی بچا، لیکن اگر بیوی اپنے دعوے کو گواہوں سے ثابت نہ کر سکے اور شوہر اپنے انکار پر قسم کھا لے، تو اس کا قول معتبر ہوگا اور شوہر کو اس کے بعد دو طلاقوں کا اختیار ہوگا، پھر شوہر کے بیان سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ بیوی کے گھر پہنچنے کے بعد وہ میاں بیوی کی طرح رہنے لگے، لہذا اگر بیوی کا دعویٰ ثابت ہو جائے، تو ان دونوں کا میاں بیوی کی طرح رہنا عملی طور پر رجوع ہوگا، جبکہ شوہر کا قول معتبر مانا جائے تو چونکہ وہ مغرب کے وقت گھر پہنچ گئی تھی، اس لیے دوسری طلاق واقع نہیں ہوئی، لہذا پہلے والا رجوع برقرار رہا۔
اس کے بعد 22 مئی 2023 کو شوہر نے اپنی بیوی کو تین مرتبہ کہا: "میں نے آپ کو چھوڑ دیا"، چونکہ لفظ "چھوڑنا" یہ طلاق کے موضوع میں صریح ہیں، لہذا جب شوہر نے اپنی بیوی کو تین مرتبہ یہ الفاظ: "میں نے آپ کو چھوڑ دیا" کہے، تو گزشتہ واقعے میں اگر بیوی کا دعویٰ ثابت ہو جائے، تو اس کے تناظر میں چونکہ شوہر کے پاس ایک طلاق کا اختیار باقی تھا، لہذا شوہر کے اس کو پہلی مرتبہ "میں نے آپ کو چھوڑ دیا" کہنے سے اس پر تیسری طلاق واقع ہوگئی اور دونوں کا نکاح ختم ہو کر حرمت مغلظہ ثابت ہو گئی اور اگر بیوی کا دعویٰ ثابت نہ ہو اور شوہر اپنے انکار پر قسم کھا لے، تو اس صورت میں شوہر کے پاس دو طلاقوں کا اختیار باقی تھا، اس تناظر میں شوہر کے جملے "میں نے آپ کو چھوڑ دیا" دو مرتبہ کہنے سے دو طلاقیں واقع ہو گئیں اور دونوں کا نکاح ختم ہو کر حرمت مغلظہ ثابت ہو گئی اور تیسری مرتبہ کا جملہ: "میں نے آپ کو چھوڑ دیا" لغو شمار ہو گا۔
خلاصہ یہ کہ سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق ہر صورت میں تین طلاقیں واقع ہو کر حرمت مغلظہ ثابت ہو چکی ہے، لیذا اب دونوں میاں بیوی میں رجوع نہیں ہو سکتا، البتہ اگر عورت پہلے شوہر کی عدت گزار کر کسی اور مرد سے نکاح کرے، اور اس سے ازدواجی تعلقات قائم کرے، پھر وہ اسے طلاق دیدے یا اس کا انتقال ہو جائے، اس کے بعد وہ عورت عدت گزار کر پہلے شوہر سے نئے مہر اور گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرنا چاہے تو نکاح کرسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیة: 282)
وَاسْتَشْہِدُوْا شَہِیْدَیْنِ مِنْ رِجَالِکُمْ فَاِنْ لَمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَاَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہَدَآء ...الخ

و قوله تعالی: (البقرۃ، الایة: 230)
فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہ ... الخ

بدائع الصنائع: (کتاب الدعوی، فصل فی حجة المدعی و المدعی علیه)
"فالبینة حجة المدعی والیمین حجة المدعی علیه لقوله علیه الصلوٰۃ و السلام البینة علی المدعی والیمین علی المدعی علیه".

الجوھرۃ النیرة: (کتاب الشهادۃ، 326/2، ط: امدادیة، ملتان)
"وما سوی ذلک من الحقوق یقبل فیہ رجلان أو رجل وامرأتان سواء کان الحق مالاً أو غیر مال مثل النکاح والعتاق والطلاق الخ".

الفتاوى الهندية: (كتاب الطلاق، الباب الرابع، الفصل الثالث، 420/1، ط: رشيدية)
"وإذا أضافه إلى الشرط ‌وقع ‌عقيب الشرط اتفاقا."

الدر المختار مع رد المحتار: (مطلب اختلاف الزوجين في وجود الشرط، 610/4)
"(فإن اختلفا في وجود الشرط) أي ثبوته ليعم العدمي (فالقول له مع اليمين) لإنكاره الطلاق إلا إذا برهنت فإن البينة تقبل على الشرط۔ (قوله في وجود الشرط) أي أصلا أو تحققا كما في شرح المجمع: أي اختلفا في وجود أصل التعليق بالشرط أو في تحقق الشرط بعد التعليق. (قوله فالقول له) أي إذا لم يعلم وجوده إلا منها ففيه القول لها في حق نفسها كما يأتي (قوله لإنكاره الطلاق) أي إنكاره وقوعه؛ وهذا أولى من التعليل بأنه متمسك بالأصل وهو عدم الشرط".

رد المحتار: (300/3، ط: سعید)
"(قوله سرحتك) من السراح بفتح السین: وھو الإرسال، أي أرسلت، لأني طلقتك لحاجة لي، وکذا فارقتك، لأني طلقتك او فی ھذا المنزل، نهر".

الفتاوى الهندية: (کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، 470/1، ط: رشيدية)
"وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين، فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض، كذا في الهداية."

الفتاوی الھندیة: (473/1، ط: دار الفكر)
"وَإِنْ كَانَ الطَّلَاقُ ثَلَاثًا فِي الْحُرَّةِ وَثِنْتَيْنِ فِي الْأَمَةِ لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ نِكَاحًا صَحِيحًا وَيَدْخُلَ بِهَا ثُمَّ يُطَلِّقَهَا أَوْ يَمُوتَ عَنْهَا، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 609 May 25, 2023
mia / khawand / shohar biwi / zoja k darmian shart k waqoo me mein ekhtelaf or shohar ka teen martaba biwi ko "mene / meney aap ko chor dia" kehne ka hokom /hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.