عنوان: آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کے سفرِ معراج میں دنیا کا بوڑھى عورت اور شیطان کا بوڑھے مرد کى شکل میں آنے کے واقعہ کی تحقیق (10573-No)

سوال: سفر معراج کے راستے میں ایک بڑھیا نظر آئی، اس نے آپ ﷺ کو آواز دی، حضرت جبریلؑ نے کہا: اس کی طرف قطعاً توجہ نہ دیجئے، کچھ آگے بڑھے تو ایک آدمی کھڑا ہوا ملا، اس نے بھی آواز دے کر آپﷺ کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا، حضرت جبریلؑ نے اس کی طرف بھی التفات نہ کرنے دیا، کچھ دور گئے تھے کہ تین آدمی کھڑے ہوئے نظر آئے، انہوں نے آپﷺ کو دیکھ کر سلام کیا، حضرت جبریلؑ نے کہا: آپﷺ ان کے سلام کا جواب دیجئے، پھر بتلایا کہ وہ بوڑھی عورت جو سر راہ کھڑی ہوئی ملی دنیا تھی، جس نے بوڑھی عورت کا روپ اختیار کر رکھا تھا اور دنیا کی عمر اتنی ہی رہ گئی ہے جتنی اس عورت کی ہے، اور وہ شخص جو آپﷺ کو آواز دے رہا تھا وہ شیطان تھا، دنیا اور شیطان دونوں آپﷺ کو اپنی طرف ملتفت کرنا چاہتے تھے، اور وہ تین آدمی جنہوں نے آپﷺ کو سلام کیا تھا حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام تھے۔ سیرت مصطفی جلد 1 ص283 (ابن جریروالبیہقی اخرجہ عن انس رضی اللہ عنہ الخصائل الکبریٰ جلد ١ صفحہ نمبر 155 تفسیر ابن کثیر جلد 6 صفحہ نمبر 8) کیا یہ واقعہ حدیث شریف میں کہیں موجود ہے؟

جواب: واضح رہے کہ واقعۂ معراج کو تقریبا 26 سے زائد صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم اجمعین نے نقل فرمایا ہے، جن کى تفصیل کتب احادیث میں موجود ہے، ان راویوں میں سے حضرت انس رضی اللّٰہ عنہ بھى ہیں، جنہوں نے اس واقعے کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے، حدیث کى متعدد کتب میں اس واقعے کو حضرت انس رضی اللّٰہ عنہ کى روایت سے مختلف طرق اور مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے، چنانچہ حضرت انس رضی اللّٰہ عنہ کى ہى روایت کے بعض طرق میں یہ واقعہ بھى مذکور ہے، جس کے متعلق سوال پوچھا گیا ہے، لہذا یہ واقعہ حدیث مبارک سے ثابت ہے، البتہ اس واقعہ کا تذکرہ چونکہ اس حدیث کے دوسرے طرق میں نہیں آیا ہے، اس لیے محدثین نے اس واقعے کو "انوکھا اور حیریت انگیز واقعہ" قرار دیا ہے، تاہم اس واقعے کو بیان کرنے میں کوئى حرج نہیں ہے، ذیل میں اس واقعے کا ترجمہ اور اس کى اسنادى حیثیت کو نقل کیا جاتا ہے:
ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم معراج کی رات براق پر تشریف لے جا رہے تھے کہ راستے میں ایک بڑھیا پر گزر ہوا، جو راستہ کے کنارے پر کھڑی تھی، اس نے آپ کو آواز دی، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا: آگے تشریف لے چلیں، اس کی طرف توجہ نہ فرمائیں، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم چلتے رہے، پھر ایک بوڑھا نظر آیا جو راستہ سے ایک طرف کھڑا تھا اور وہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اپنی طرف بلاتا تھا کہ اے محمدﷺ! ادھر آئیے، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا: آگے تشریف لے چلیں، آگے چل کر آپ کا ایک جماعت پر گزر ہوا، انہوں نے آپ کو ان الفاظ سے سلام کیا: "السلام علیك یا أول" (آپ پر سلام ہو اے سب سے اول)
"السلام علیك یا آخر" (آپ پر سلام ہو اے سب سے آخر)
"السلام علیك یا حاشر" (آپ پر سلام ہو اے سب کو جمع کرنے والے)
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: آپ ان کے سلام کا جواب دیجیے، آپ ﷺ نے انہیں سلام کا جواب دیا، اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ان سب کے بارے میں وضاحت عرض کی: وہ بڑھیا جو راستہ کے کنارے کھڑی تھی وہ دنیا تھی، دنیا کی عمر اتنی تھوڑی سی رہ گئی ہے، جتنی اس بوڑھی عورت کی عمر باقی ہے اور وہ بوڑھا مرد جس نے آپ کو بلایا تھا، وہ شیطان تھا، دونوں کا مقصد آپ کو اپنی طرف مائل کرنا تھا، اگر آپ ان کو جواب دیتے تو آپ کى امت گمراہ ہو جاتی اور وہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دے دیتی اور وہ جماعت جس نے آپ کو سلام کیا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے۔
(تہذیب الآثار للطبری: حدیث نمبر: 715)
نوٹ: اس واقعے کو سیرت کی عربی اور اردو کی تمام مستند کتابوں میں نقل کیا گیا ہے، نیز اس واقعے کو شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوى رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی مایہ ناز تصنیف "سیرت المصطفىﷺ" جلد 1 ص 283 میں نقل فرمایا ہے اور کتاب کے شروع میں جلد 1 ص 14 پر یہ صراحت فرمائى ہے کہ انہوں نے اس کتاب میں سیرت کى مستند روایات کو نقل کرنے کا اہتمام والتزام کیا ہے۔
تخریج الحدیث:
1) اس حدیث کو امام ابو جعفر الطبری رحمہ اللّٰہ (م 310 ھ) نے "تہذیب الآثار" (1/ 410، ط: مطبعة المدني-قاهرة) میں نقل فرمایا ہے۔
2) امام بیہقی رحمہ اللّٰہ (م 458 ھ) نے "دلائل النبوة" (2/ 361، ط: دار الكتب العلمية) میں نقل فرمایا ہے۔
3) امام حافظ ضیاء الدین المقدسی رحمہ اللّٰہ (م 643 ھ) نے "الأحاديث المختارة" (6/ 258، ط: دار خضر للطباعة) میں نقل فرمایا ہے۔
حدیث کی اسنادی حیثیت:
اس حدیث کے متعلق حافظ ابن کثیرؒ (م 774 ھ) نے "تفسیر ابن کثیر" (8/ 384، ط: مؤسسة قرطبة) میں اس حدیث کے متعلق فرمایا ہے: اس حدیث کے بعض الفاظ میں "نکارۃ وغرابة" (ان میں انوکھا پن اور حیرت انگیز واقعات ہیں)۔
علامہ زرقانیؒ (م 1122 ھ) نے "شرح زرقانی" جلد 8 ص 85 میں حافظ ابن کثیرؒ کے کلام کی یہ توجیہ بیان فرمائى ہے کہ چونکہ اس واقعے کا ذکر صرف حضرت انس رضی اللّٰہ عنہ کی روایت میں آیا ہے، دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی روایات میں اس واقعے کا ذکر نہیں آیا ہے، اس اعتبار سے یہ واقعہ انوکھا اور منفرد معلوم ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

تهذيب الآثار مسند ابن عباس: (رقم الحدیث: 715، 410/1، ط: مطبعة المدني- قاهرة)
حدثني يونس بن عبد الأعلى الصدفي، قال: أخبرنا ابن وهب، قال: حدثني يعقوب بن عبد الرحمن الزهري، عن أبيه، عن عبد الرحمن بن هاشم بن عتبة بن أبي وقاص، عن أنس بن مالك، قال: لما أتى جبريل بالبراق إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "«فكأنها صرت أذنيها» ، فقال لها جبريل عليه السلام: مه يا براق، والله إن ركبك مثله. فسار رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا هو بعجوز على جنب الطريق، فقال: «ما هذه يا جبريل؟» ، قال: سر يا محمد فسار ما شاء الله أن يسير، فإذا شيء يدعوه متنحيا عن الطريق: هلم يا محمد قال له جبريل: سر يا محمد. فسار ما شاء الله أن يسير، قال: ثم لقيه خلق من الخلق، فقال أحدهم: السلام عليك يا أول، والسلام عليك يا آخر، والسلام عليك يا حاشر. فقال له جبريل: اردد السلام يا محمد، قال: فرد السلام، ثم لقيه الثاني، فقال له مثل مقالة الأول، ثم لقيه الثالث فقال له مثل مقالة الأولين، حتى انتهى إلى بيت المقدس، فعرض عليه الماء واللبن والخمر، فتناول رسول الله صلى الله عليه وسلم اللبن، فقال له جبريل عليه السلام: أصبت الفطرة، لو شربت الماء لغرقت وغرقت أمتك، ولو شربت الخمر لغويت وغويت أمتك، ثم بعث له آدم فمن دونه من الأنبياء، فأمهم رسول الله صلى الله عليه وسلم تلك الليلة، ثم قال له جبريل عليه السلام: أما العجوز التي رأيت من على جنب الطريق، فلم يبق من الدنيا إلا ما بقى من تلك العجوز، وأما الذي أراد أن تميل إليه، فذاك عدو الله إبليس أراد أن تميل إليه، وأما الذين سلموا عليك، فذاك إبراهيم وموسى وعيسى صلوات الله عليهم".

دلائل النبوة للبيهقي: (361/2، ط: دار الكتب العلمية)
وأخبرنا أبو الحسن، علي بن أحمد بن عبدان قال: أخبرنا أحمد بن عبيدالصفار قال: حدثنا محمد بن إسماعيل الترمذي قال: حدثنا أبو علي بن مقلاص قال: حدثنا عبد الله بن وهب بن مسلم أبو محمد القرشي قال: حدثني يعقوب بن عبد الرحمن الزهري، عن أبيه، عن عبد الرحمن بن هاشم بن عتبة ابن أبي وقاص، عن أنس بن مالك قال: لما جاء جبريل عليه السلام إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالبراق فكأنها أمرت ذنبها، فقال: لها جبريل: مه يا براق فوالله إن ركبك مثله، وسار رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا هو بعجوز على جانب الطريق فقال: «ما هذه يا جبريل؟» قال: سر يا محمد، فسار ما شاء الله أن يسير فإذا شيء يدعوه متنحيا عن الطريق يقول: هلم يا محمد، فقال له جبريل: سر يا محمد، فسار ما شاء الله أن يسير قال: فلقيه خلق من الخلق، فقالوا: السلام عليك يا أول، السلام عليك يا آخر، السلام عليك يا حاشر، فقال له جبريل: اردد السلام يا محمد، فرد السلام، ثم لقيه الثانية، فقال له: مثل مقالته الأولى، ثم الثالثة كذلك حتى انتهى إلى بيت المقدس، فعرض عليه الماء والخمر واللبن فتناول رسول الله صلى الله عليه وسلم اللبن فقال له جبريل: أصبت الفطرة، ولو شربت الماء لغرقت وغرقت أمتك، ولو شربت الخمر لغويت وغويت أمتك، ثم بعث له آدم فمن دونه من الأنبياء عليهم السلام فأمهم رسول الله صلى الله عليه وسلم تلك الليلة، ثم قال له جبريل: أما العجوز التي رأيت على جانب الطريق فلم يبق من الدنيا إلا ما بقي من عمر تلك العجوز، وأما الذي أراد أن تميل إليه، فذلك عدو الله إبليس، أراد أن تميل إليه. وأما الذين سلموا عليك فإبراهيم وموسى وعيسى عليهم السلام ".

الأحاديث المختارة: (رقم الحدیث: 2277، 258/6، ط: دار خضر للطباعة)
أخبرنا الإمام أبو بكر أحمد بن عبيد الله بن محمد اللنجاني بأصبهان أن أبا عبد الله الحسن بن العباس الرستمي أخبرهم أبنا إبراهيم بن محمد بن إبراهيم الطيان أبنا إبراهيم بن عبد الله بن خرشيذ قوله أبنا أبو بكر عبد الله بن محمد بن زياد النيسابوري ثنا يونس أبنا عبد الله بن وهيب حدثني يعقوب بن عبد الرحمن الزهري عن أبيه عن عبد الرحمن بن هاشم بن عتبة بن [أي وقاص عن أنس قال لم جاء جبريل بالبراق إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال :"فكأنما صرت أذنيها فقال لها جبريل مه يا براق والله إن ركبك مثله فسار رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا هو بعجوز تئن على جنب الطريق فقال ما هذه يا جبريل قال سر يا محمد قال فسار ما شاء الله أن يسير وسقط من سماعنا فإذا شيء يدعوه متنح عن الطريق هلم يا محمد قال له جبريل سر يا محمد فسار ما شاء الله أن يسير إلى هنا سقط قال ثم لقيه خلق من الخلق فقال السلام عليك يا أول السلام عليك يا آخر والسلام عليك يا حاشر فقال له جبريل اردد السلام يا محمد قال فرد السلام ثم لقيه الثاني فقال له مثل مقالة الأول ثم لقيه الثالث فقال له مثل مقالة الأوليين حتى انتهى إلى بيت المقدس فعرض عليه الماء والخمر واللبن فتناول رسول الله صلى الله عليه وسلم اللبن فقال له جبريل أصبت الفطرة لو شربت لاماء لغرقت وغرقت أمتك ولو شربت الخمر لغويت وغويت أمتك ثم بعث له آدم فمن دونه من الأنبياء فأمهم رسول الله صلى الله عليه وسلم تلك الليلة ثم قال له جبريل أما العجوز التي رأيت تئن على جنب الطريق فلم يبق من الدنيا إلا ما بقي من تلك العجوز وأما الذي أردت تميل إليه فذاك عدو الله إبليس أراد أن تميل إليه وأما الذين سلموا عليك فذاك إبراهيم وموسى عليهم السلام".

تفسير ابن كثير: (384/8، ط: مؤسسة قرطبة)
والحدیث أورده ابن كثير في "التفسير" 8/ 384، معزوا لابن جرير الطبري، وقال: "وهكذا رواه الحافظ البيهقي في دلائل النبوة من حديث ابن وهب وفي بعض ألفاظه نكارة وغرابة " طريق أخرى " عن أنس بن مالك وفيها غرابة ونكارة جدا".

شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية: (85/8، ط: دار الكتب العلمية- بيروت)
"قال الحافظ عماد الدين بن كثير في ألفاظه"، أي: هذا الحديث: "نكارة وغرابة"، لمخالفته لما في حديث أبي سعيد: أن جبريل أجابه بقوله: لو أجبتها ... إلخ، لما تمثلت بامرأة حاسرة عن ذراعيها، عليها من كل زينة، خلقها الله، وأما حين تمثلها بعجوز -فأجابه بأنه لم يبق من الدنيا ... إلخ، ومن جهة تفرده بذكر لقائه لهؤلاء الثلاثة في ذهابه إلى بيت المقدس قبل دخوله".

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 372 Jun 05, 2023
anhazrat sallalaho alihe / allihe wasallam k safare meraj me / mein dunya ka borhi / borhe aurat / ourat or shetan / shetaan ka borhe /borhay mard / shaks ki shakal me / mein aane k waqa ki tehqeeq / tehqiq

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.