سوال:
میرے والد صاحب اور چچا جان کا پانچ مرلہ سات سرسائی کا پلاٹ تھا جو انہوں نے زبانی کلامی مدرسے کو وقف کردیا تھا۔ تقریبا دس بارہ سال وہاں مدرسہ قائم رہا، لیکن جگہ کی قلت کے باعث مدرسہ کے لیے اور جگہ خرید لی اور اس جگہ کو فروخت کردیا۔ لینے والے نے اس وقت یہ پلاٹ تین لاکھ ساٹھ ہزار کا خریدا تھا۔ تقریبا اس کو استعمال کرتے ہوئے چھ یا سات سال ہوگئے ہیں، اب مدرسہ والے اسے واپس لینا چاہتے ہیں، اس پلاٹ کی قیمت اب سات آٹھ لاکھ روپے ہیں۔ شرعی طور پر قرآن و حدیث کی روشنی میں آگاہ فرمائیں کہ خریدنے والا اس کو واپس کرنے کا پابند ہے؟ جبکہ اس کا نقشہ بھی بدل دیا گیا ہے۔ آیا مدرسے کی جگہ فروخت کی جا سکتی ہے؟ اور اگر جگہ واپس کرنی ہے تو وہ موجودہ رقم کے ساتھ واپس کی جائے یا جس قیمت میں خریدی تھی اسی میں واپس کی جائے ؟ رہنمائی فرمائیں
جواب: واضح رہے کہ وقف جب مکمل ہوجائے تو وقف کی ہوئی چیز واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے، اور اس کی خرید و فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے اور اگر وقف شدہ چیز کو خریدا یا فروخت کیا جائے تو اس کی بیع باطل ہوتی ہے اور اس میں بیع کا نفاذ نہیں ہوتا ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں مدرسے کی وقف زمین کی خرید و فروخت درست نہیں ہے، خریدنے والے پر لازم ہے کہ اس بیع کو ختم کرکے رقم واپس لے لے اور جو کچھ تعمیر کرا رکھی ہے اس کو منہدم کرکے ملبہ کو اپنے استعمال میں لے آئے، اور اگر عمارت مدرسے کے استعمال میں آسکتی ہے تو مدرسے کے ذمہ دار پلاٹ کی اصل قیمت اور مکان کی قیمت دے کر واپس لے لیں، لیکن قیمت ایسے مکان کی لگائی جائے گی جس کے گرانے کا فیصلہ کیا جاچکا ہو جو ملبہ کی قیمت سے کچھ زیادہ نہ ہوگی۔
نیز واضح رہے کہ وقف صحیح ہونے کے لیے تحریری ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ زبانی بھی وقف صحیح و نافذ ہوجاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهداية: (18/3، ط: دار إحياء التراث العربي)
"وإذا صح الوقف لم يجز بيعه ولا تمليك
رد المحتار: (352/4، ط: دار الفكر)
(قوله: لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه، ولا يعار، ولا يرهن لاقتضائهما الملك.
و فیه أیضاً: (338/4)
ثم إن أبا يوسف يقول يصير وقفا بمجرد القول لأنه بمنزلة الإعتاق عنده، وعليه الفتوى. وقال محمد: لا إلا بأربعة شروط.
الهندية: (447/2، ط: دار الفكر)
فإن كان الغاصب زاد في الأرض من عنده إن لم تكن الزيادة مالا متقوما بأن كرب الأرض أو حفر النهر أو ألقى في ذلك السرقين واختلط ذلك بالتراب وصار بمنزلة المستهلك فإن القيم يسترد الأرض من الغاصب بغير شيء، وإن كانت الزيادة مالا متقوما كالبناء والشجر يؤمر الغاصب برفع البناء وقلع الأشجار ورد الأرض إن لم يضر ذلك بالوقف، وإن كان أضر بالوقف بأن خرب الأرض بقلع الأشجار والدار برفع البناء لم يكن للغاصب أن يرفع البناء أو يقلع الشجر إلا أن القيم يضمن قيمة الغراس مقلوعا وقيمة البناء مرفوعا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی