عنوان: عقیقہ نہ ہونے تک بچہ کا آفات اور بلاؤں میں ہونے کی حقیقت (10586-No)

سوال: یہ سنا ہے کہ جب تک بچے کا عقیقہ نہ کر لیا جائے تب تک بچے کے ساتھ مصائب لگے رہتی ہیں۔ کیا یہ بات درست ہے اور کیا عقیقہ کرنا ضروری ہے؟

جواب: جى ہاں! عقیقہ کے فضائل اور فوائد میں سے یہ بات بھى احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ نو مولود بچے کا جب تک عقیقہ نہ ہو جائے، تو اس وقت تک وہ بچہ آفات اور بلاؤں کے خطرے میں ہوتا ہے۔
چنانچہ حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔
ترجمہ: "حضرت سلمان بن عامر الضبی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "لڑکےکے ساتھ عقیقہ ہے"(یعنى بچے کا عقیقہ تو ہونا ہى چاہیے، اس پر بلائیں زیادہ آتى ہیں اور عقیقہ سے بلائیں ٹلتى ہیں)، "پس تم اس کى طرف سے خون بہاؤ" (عقیقہ میں اصل جانور ذبح کرنا ہے، پھر دعوت کرنا یا گوشت تقسیم کرنا یکساں ہے) "اور اس سے تکلیف دہ چیز دور کرو"، (یعنى سر کے بال، ہاتھ پاؤں کے ناخن کاٹو اور بچہ تندرست ہو تو ختنہ کرا دو)۔
(صحیح بخاری: حدیث نمبر: 5472)
(ترجمہ وتشریح از "تحفۃ القارى شرح صحیح البخارى" جلد 10 ص 389، طبع: زمزم پبلشرز، کراچى)
شیح الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوى رحمۃ اللہ علیہ (م 1402 ھ) نے "الأبواب والتراجم" جلد 6 ص 39 میں مذکورہ بالا حدیث میں بچے سے تکلیف دہ چیز دور کرنے کا مفہوم یہ بیان فرمایا ہے کہ اس سے مراد وہ تکلیف دہ بلائیں ہیں، جو بچے کو پیش آ سکتى ہیں، لہذا عقیقہ کر کے اس بچے سے ان بلاؤں اور آفات کو دور کر دو، جیسا کہ ملا على قارى رحمۃ اللہ علیہ (م 1014 ھ) نے آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کے ارشاد "الغلام مرتهن بعقيقته" (ہر بچہ اپنے عقیقہ کے جانور کے عوض رہن (گروى) ہوتا ہے) کا یہى مفہوم بیان فرمایا ہے کہ بچے کى آفات سے سلامتى اس کے عقیقہ کے عوض محبوس ہوتى ہے۔
مزید اس بارے میں ارشاد نبوى صلى الله عليہ وسلم ہے۔
ترجمہ: "حضرت حسن بصرى رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر بچہ اپنے عقیقہ کے جانور کے عوض رہن (گروى) ہوتا ہے، جو ساتویں دن اس کى طرف سے قربانى کیا جائے اور اس کا سر منڈوا دیا جائے اور نام رکھا جائے".
(سنن ترمذی: حدیث نمبر: 1522)
محدث کبیر حضرت مفتى سعید احمد پالنپورى رحمۃ اللہ علیہ (م 1441 ھ) نے "تحفۃ الالمعی شرح ترمذی" اس حدیث کے ترجمہ و تشریح میں فرمایا ہے: "لڑکا گروى رکھا ہوا ہے عقیقہ کے بدلے میں، یعنى آفات میں محبوس ہے۔۔۔ وہ عقیقہ کے ذریعے چھڑایا جائے، یعنى عقیقہ اس کا فدیہ بن جاتا ہے اور وہ آفات سے بچ جاتا ہے۔۔۔ جب تک بچہ کا عقیقہ نہ کیا جائے، وہ معرض آفات میں رہتا ہے اور عقیقہ فدیہ بن جاتا ہے، اس سے بچے کى بلائیں دور ہوتى ہیں اور لڑکے پر چونکہ بلائیں زیادہ آتى ہیں، اس لیے اس کا دو بکروں کا عقیقہ مسنون ہےاور لڑکى پر بلائیں نسبتا کم آتى ہیں، اس لیے اس کى طرف سے ایک بکرى کافى ہے".
(تحفۃ الالمعی شرح سنن الترمذی: جلد 4 ص 452، ط: زمزم پبلشرز،کراچى)
نیز واضح رہے کہ بچے کى پیدائش پر عقیقہ کرنا مستحب ہے، فرض یا واجب نہیں ہے، لہذا اگر کسى کے پاس استطاعت نہ ہو، تو اس پر عقیقہ کرنا لازم نہیں ہے اور جس کے پاس مالى وسعت ہو، تو اسے عقیقہ کرنا چاہیے، احادیث مبارکہ میں اس بات کى بہت ترغیب آئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحيح البخاري: (کتاب العقیقة، باب إماطة الأذى عن الصبي في العقيقة، رقم الحدیث: 5471، 84/7، ط: دار طوق النجاۃ)
قال أصبغ: أخبرني ابن وهب، عن جرير بن حازم، عن أيوب السختياني، عن محمد بن سيرين، حدثنا سلمان بن عامر الضبي، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "مع الغلام عقيقة، فأهريقوا عنه دما، وأميطوا عنه الأذى".

الأبواب و التراجم للكاندهلوي: (كتاب العقيقة، باب إماطة الأذى عن الصبي في العقيقة، 39/6، ط: دار البشائر الإسلامية)
"قال العيني: وفي "التوضيح ": وإماطة الأذى عن الصبي: حلق الشعر الذي على الرأس، انتهى.
وفي هامش "اللامع": واختلفوا في مصداق الأذى....والأوجه عند هذا العبد الضعيف –عفا الله تعالى عنه- أن المراد بالأذى البلايا المتعلقة بالمولود، قال القاري في شرح قوله صلى الله عليه وسلم: "الغلام مرتهن بعقيقته" يعني أنه محبوس سلامته عن الآفات بها، انتهى".

سنن الترمذي: (أبواب الأضاحي، باب من العقيقة، 153/3، رقم الحديث: 1522، ط: دار الغرب الإسلامي)
عن الحسن، عن سمرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الغلام مرتهن بعقيقته يذبح عنه يوم السابع، ويسمى، ويحلق رأسه حدثنا الحسن بن علي الخلال، قال: حدثنا يزيد بن هارون، قال: أخبرنا سعيد بن أبي عروبة، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة بن جندب، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه.
وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح.

مرقاة المفاتيح: (كتاب الصيد و الذبائح، باب العقيقة، 2687/7، رقم الحديث: 4153، ط: دار الفكر- بيروت)
" الغلام مرتهن "): بضم الميم وفتح الهاء أي مرهون بعقيقته: يعني أنه محبوس سلامته عن الآفات بها".

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 929 Jun 07, 2023
aqiqa na hone tak bachay ka afaat or balao / balaon me / mein hone ki haqiqat

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Fosterage

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.