سوال:
میری دوسری بیوی ہے، میرا اس سے بچوں کے کسی معاملے میں جھگڑا ہو گیا تھا تو میری بیوی نے مجھ سے بار بارعدالت سے خلع لینے کا کہا، میں اس وقت سیڑھیوں میں کھڑا تھا، "میں نے چھ یا سات مرتبہ بولا کہ طلاق، طلاق، طلاق، طلاق، طلاق، طلاق میں اس طرح ایک ہزار مرتبہ بھی بولوں تو طلاق نہیں ہوتی"۔ یہ الفاظ بولتے وقت طلاق دینے کی کوئی نیت نہیں تھی، نہ مزاق میں، نہ غصے میں، میں نے یہ الفاظ ڈرانے کی نیت سے کہے تھے تو کیا اس طرح طلاق واقع ہو جاتی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ طلاق کے وقوع کے لیے بیوی کی طرف صراحۃً نسبت کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ دلالۃً نسبت ہونے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے یعنی جب بیوی کی طرف نسبت کے قرائن موجود ہوں تو طلاق واقع ہونے کے لیے صراحۃً بیوی کی جانب نسبت کرنا ضروری نہیں ہے، مثلاً: جھگڑا ہورہا ہو یا طلاق کا مطالبہ یا علیحدگی کی بات ہورہی ہو ،اور شوہر اپنی بیوی کو ہی طلاق کے الفاظ کہہ رہا ہو تو اس سے بھی طلاق واقع ہوجائے گی۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں جب شوہر نے اپنے بیوی کی بات کے جواب میں اس کے سامنے طلاق، طلاق طلاق، الفاظ کہے تو اس سے بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، اور بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے اور تین طلاقیں دینے کی صورت میں عدت کے دوران رجوع کا حق باقی نہیں رہتا ہے اور نہ ہی عدت گزرنے کے بعد اس شوہر سے دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے، جب تک کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے اور اس کے ساتھ حقوقِ زوجیت ادا نہ کرے، پھر اگر وہ طلاق دے دے یا انتقال کر جائے تو عدت گزرنے کے بعد طرفین کی رضامندی سے نئے مہر اور دو گواہوں کی موجودگی میں اسی شخص سے دوبارہ نکاح کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 230)
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ... الخ
رد المحتار: (248/3، ط: دار الفكر)
لو أراد الحلف بطلاقها يقع لأنه جعل القول له في صرفه إلى طلاق غيرها، والمفهوم من تعليل الشارح تبعا للبحر عدم الوقوع أصلا لفقد شرط الإضافة، مع أنه لو أراد طلاقها تكون الإضافة موجودة ويكون المعنى فإني حلفت بالطلاق منك أو بطلاقك، ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته. اه. على أنه في القنية قال عازيا إلى البرهان صاحب المحيط: رجل دعته جماعة إلى شرب الخمر فقال: إني حلفت بالطلاق أني لا أشرب وكان كاذبا فيه ثم شرب طلقت. وقال صاحب التحفة: لا تطلق ديانة اه وما في التحفة لا يخالف ما قبله لأن المراد طلقت قضاء فقط، لما مر من أنه لو أخبر بالطلاق كاذبا لا يقع ديانة بخلاف الهازل، فهذا يدل على وقوعه وإن لم يضفه إلى المرأة صريحا، نعم يمكن حمله على ما إذا لم يقل إني أردت الحلف بطلاق غيرها.
بدائع الصنائع: (102/3، ط: دار الكتب العلمية)
وحال الغضب ومذاكرة الطلاق دليل إرادة الطلاق ظاهرا فلا يصدق في الصرف عن الظاهر.
الدر المختار: (233/3، ط: دار الفکر)
وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث.
فتاوی محمودیه: (467/1، ط: ادارة الفاروق)
فتاویٰ دار العلوم دیوبند: (196/9، ط: دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی