سوال:
میں نے ایک ٹرک خریدا 21 لاکھ روپے میں خریدا، پھر ایک شخص کو اس ٹرک میں اس بات پر شریک کیا کہ وہ مجھے 21 لاکھ اس ٹرک سے کما کر ادا کرے گا اور پھر ہم دونوں اس ٹرک میں آدھے آدھے کے حصے دار ہونگے اور جو بھی پرافٹ ہوگا آدھا آدھا ہوگا، کیا یہ معاملہ درست ہے اور اگر درست نہیں تو درستگی کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ نیز فریق ثانی اسی ٹرک کا ڈرائیور بھی ہے تو کیا وہ الگ سے اپنی تنخواہ لے سکتا ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں چونکہ ٹرک آپ کی ملکیت میں ہے، آپ ٹرک ڈرائیور کو ٹرک چلانے کے عوض طے شدہ اجرت (تنخواہ) دے سکتے ہیں، اس دوران ٹرک کے نفع و نقصان کے آپ ہی مالک ہونگے، نیز جب ڈرائیور آپ کی دی گئی پیشکش (offer) کے مطابق اپنے پیسوں سے ٹرک کی آدھی قیمت آپ کو ادا کر دے گا، تب آپ دونوں اس ٹرک میں شراکت داری (partnership) کرسکتے ہیں، اس کے بعد آنے والا نفع باہمی رضامندی سے طے شدہ شرح منافع کے حساب سے تقسیم ہوگا، اور نقصان کی صورت میں ہر فریق اپنے سرمایہ کے بقدر نقصان برداشت کرے گا۔
واضح رہے کہ یہ دونوں معاملات (ٹرک چلانے کے عوض تنخواہ اور ٹرک میں شراکت داری) الگ الگ ہونے چاہئیں، ایک دوسرے کے ساتھ مشروط نہ ہو، تاہم انہیں وعدہ کے طور پر ذکر کیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شرح المجلة: (الباب الثانی فی الاجارة، رقم المادۃ: 448)
یشترط فی صحة الاجارة رضی العاقدین
و فیه ایضا: (الفصل الثالث فی شروط صحة الاجارة، رقم المادة: 445، 451)
یشترط ان تکون الاجرة معلومة۔۔یشترط فی الاجارۃ ان تکون المنفعة معلومة بوجه یکون مانعا للمنازعة
فقه البیوع: (507/1، ط: مکتبة معارف القرآن)
وعلی أساس هذا الحدیث ذهب جمهور العلماء الی أن اشتراط صفقة فی صفقة اخری لایجوز. قال ابن قدامة: وھکذا کل ما فی معنی ھذا، مثل أن یقول بعتك داری هذه علی أن أبیعك داری الاخری بکذا أو علی أن تبیعنی دارك أو علی أن أوجرك أو علی أن تؤجرنی کذا
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی