عنوان: سابقہ مذہب سے براءت کا اظہار کرنے والی لڑکی سے نکاح کا حکم (10601-No)

سوال: میری شادی 2018 میں ہوئی تھی، میری بیوی ایک گمراہ فرقہ سے تھی، میں نے اس وقت ان سے عقائد پوچھے تھے، میں نے ایک عالم سے پوچھا تھا کہ ان سے کیا پوچھوں؟ تو ایک عالم صاحب کے ساتھ میں نے ان سے یہ سوالات کیے تھے، انھوں نے درج ذیل جوابات دیے تھے:
۱) آپ قران میں تحریف مانتی ہیں؟ جواب : نہیں ،بلکل نہیں۔
۲) آپ کے دل میں صحابہ کرام کے بارے میں بغض ہے؟
جواب :نہیں ،ذرہ برابر بھی نہیں ہے۔
۳) آپ اماں عائشہ پر تہمت لگاتی یا اس تہمت کو مانتی ہیں؟ جواب: نہیں۔
اور آج تک میری بیوی کے یہی عقائد ہیں، لہذا اس بنا پر میں نے ان سے نکاح کرلیا، اس سے پہلے میری بیوی کے بچے تھے، پھر مجھ سے ایک بیٹا پیدا ہوا۔ میرے بھائی عالم دین ہیں، میری شادی کو چھ سال ہوگئے ہیں، کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوا، اب میرے گھر والوں کے اندرونی جھگڑے ہوئے تو انہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ تمھارا تو نکاح ہی نہیں ہوا اور پھر میرے بھائی نے مجھے ایک عالم صاحب کے پاس بٹھایا اور کہا کہ تمھارا نکاح نہیں ہوا، تم اپنی بیوی کو چھوڑ دو، اس نے جو عقائد بتائے ہیں، جھوٹ بول رہی ہے، تقیہ کر رہی ہے۔ نیز تمھارے اس بیٹےکے بارے میں بھی پوچھنا پڑے گا کہ اس کی کیا حیثیت ہے؟ نیز میرے گھر والوں نے مجھ کو جسمانی ٹارچر بھی کیا کہ میں اس لڑکی کو چھوڑ دوں، اور انہوں نے یہ بھی زور دیا کہ میں اپنا گھر (ناظم آباد ) سے چھوڑ کر ان کے ساتھ (بلدیہ )میں آکر رہوں۔ نیز میرے بھائی وغیرہ نے میری بیوی پر نازیبا الزامات بھی لگائے ہیں اور ایک مرتبہ میرے ایک عالم بھائی نے یہ تک کہا کہ میرا متعہ کرواو، لہذا اب میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ:
۱) میرا مذکورہ لڑکی سے نکاح جائز ہے یا نہیں؟ اور میرے بیٹے کی کیا شرعی حیثیت ہے؟
۲) میرے گھر والے بھی مجھ پر زور دے رہے ہیں کہ اپنا گھر چھوڑ کر ان کے ساتھ رہو، اس کی کیا شرعی حیثیت ہے؟
۳) میرے بھائی وغیرہ کا میری بیوی کے کرداد پر گندے الزامات لگانے کی کیا حیثیت ہے؟

جواب: 1) اگر وہ عورت نکاح سے پہلے اپنے عقائد سے براءت کا اعلان کرچکی ہے، اور واضح طور پر اس کا اقرار بھی کرچکی ہے تو اس کی بات کا اعتبار کرتے ہوئے اس کے ساتھ نکاح منعقد ہوچکا ہے اور اس کے بطن سے پیدا شدہ بچہ اپنے باپ سے ثابت النسب ہوگا۔
2) آپ کے گھر والوں کا آپ کو اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔
3) کسی پر تہمت لگانے کے لیے شرعی گواہوں کا ہونا ضروری ہے، اگر کوئی بغیر شرعی ثبوت کے کسی پر تہمت لگاتا ہے تو یہ سخت گناہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم :(النور، الایة: 4)
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَo

الھندیة: (282/1، ط: دار الفکر)
ولا يجوز للمرتد أن يتزوج مرتدة ولا مسلمة ولا كافرة أصلية وكذلك لا يجوز نكاح المرتدة مع أحد، كذا في المبسوط
ولا يجوز تزوج المسلمة من مشرك ولا كتابي، كذا في السراج الوهاج.

و فیھا أیضاً: (264/2، ط: دار الفکر)
الرافضي إذا كان يسب الشيخين ويلعنهما والعياذ بالله، فهو كافر، وإن كان يفضل عليا كرم الله تعالى وجهه على أبي بكر - رضي الله تعالى عنه - لا يكون كافرا إلا أنه مبتدع والمعتزلي مبتدع إلا إذا قال باستحالة الرؤية، فحينئذ هو كافر كذا في الخلاصة.
ولو قذف عائشة - رضي الله تعالى عنها - بالزنا كفر بالله، ولو قذف سائر نسوة النبي - صلى الله عليه وسلم - لا يكفر ويستحق اللعنة، ولو قال عمر وعثمان وعلي - رضي الله عنهم - لم يكونوا أصحابا لا يكفر ويستحق اللعنة كذا في خزانة الفقه۔۔۔۔۔۔۔ويجب إكفار الروافض في قولهم برجعة الأموات إلى الدنيا، وبتناسخ الأرواح وبانتقال روح الإله إلى الأئمة وبقولهم في خروج إمام باطن وبتعطيلهم الأمر والنهي إلى أن يخرج الإمام الباطن وبقولهم إن جبريل - عليه السلام - غلط في الوحي إلى محمد - صلى الله عليه وسلم - دون علي بن أبي طالب - رضي الله عنه -، وهؤلاء القوم خارجون عن ملة الإسلام وأحكامهم أحكام المرتدين كذا في الظهيرية.

بدائع الصنائع: (43/4، ط: دار الكتب العلمية)
وأما التي للرجال فأما وقتها فما بعد الاستغناء في الغلام إلى وقت البلوغ وبعد الحيض في الجارية إذا كانت عند الأم أو الجدتين وإن كانا عند غيرهن فما بعد الاستغناء فيهما جميعا إلى وقت البلوغ لما ذكرنا من المعنى وإنما توقت هذا الحق إلى وقت بلوغ الصغير والصغيرة؛ لأن ولاية الرجال على الصغار والصغائر تزول بالبلوغ كولاية المال غير أن الغلام إذا كان غير مأمون عليه فللأب أن يضمه إلى نفسه ولا يخلي سبيله كي لا يكتسب شيئا عليه وليس عليه نفقته إلا أن يتطوع فأما إذا بلغ عاقلا واجتمع رأيه واستغنى عن الأب وهو مأمون عليه؛ فلا حق للأب في إمساكه كما ليس له أن يمنعه من ماله فيخلي سبيله فيذهب حيث شاء والجارية إن كانت ثيبا وهي غير مأمونة على نفسها لا يخلي سبيلها ويضمها إلى نفسه وإن كانت مأمونة على نفسها؛ فلا حق له فيها ويخلي سبيلها وتترك حيث أحبت وإن كانت بكرا لا يخلي سبيلها وإن كانت مأمونة على نفسها؛ لأنها مطمع لكل طامع ولم تختبر الرجال فلا يؤمن عليها الخداع.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 401 Jun 12, 2023
sabqa / sabiqa mazhab se / say baraat ka izhar karne wali larki se /say nikah ka hokom /hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.