عنوان: ”ابھی تمہارے پاس ایک جنتی شخص آنے والا ہے‘‘۔۔۔ روایت کی تحقیق" (10610-No)

سوال: مفتی صاحب! براہ کرم اس واقعہ کی تصدیق فرمادیں:
ایک دن پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان تشریف فرما تھے کہ آپ نے اچانک فرمایا: یطلع الان علیکم رجل من اھل الجنتہ کہ ابھی تمھارے پاس سے ایک جنتی شخص گزرے گا صحابہ کرامؓ منتظر رہے تو ایک انصاری صحابی وضو کے بعد اپنی ڈاڑھی جھاڑتے ہوئے بائیں ہاتھ میں جوتے اٹھائے تشریف لا رہے ہیں، دوسرے دن بھی رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کے کلمات ارشاد فرمائے، صحابہ کرام نے دیکھا کہ آج پھر اس بشارت عظمٰی کے مستحق وہی انصاری صحابی بن رہے ہیں اور اسی شان سے گزر رہے ہیں، اسی طرح تیسرے دن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بشارت دی اور وہی انصاری صحابی گزرے۔
جب مجلس نبوی برخاست ہوئی تو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ چپکے سے ان کے پیچھے ہو لیے، جب ان کے گھر کے قریب پہنچے تو کہا کہ میرے ساتھ کوئی ایسا گھویلو مسئلہ بن گیا ہے کہ میں نے تین دن تک اپنے گھر داخل نہ ہونے کی قسم اٹھا رکھی ہے، اگر آپ مہربانی فرمائیں اور مجھے اپنے ہاں تین دن قیام کرنے دیں تو میں آپ کا بے حد شکر گزار ہوں گا۔
اس انصاری نے کہا ٹھیک ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے تین دن تک ان انصاری صحابی کے ہاں قیام کیا اور ان کے اعمال کا بغور جائزہ لیا کہ آخر اس شخص کے اندر کون سی ایسی خوبی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین دن تک اس کے جنتی ہونے کی بشارت دیتے رہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رات کو وہ معمول کے مطابق عبادت کرتا تھا اور اللہ کا ذکر بھی معمول کے مطابق ہی کرتا تھا، اپنی زبان سے حتی الوسع بھلائی کا کلمہ نکالتا تھا، میں نے اس کی نیکی کو معمولی سمجھا اور دل میں سوچا کہ یہ تو کوئی ایسی نئی یا بڑی بات نہیں ہے۔آخر تین دن بعد میں نے اس کے سامنے ساری حقیقت بیان کردی کہ میں نے تو محض تمہارے اعمال وغیرہ دیکھنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا تھا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح تمہارے بارے میں بشارت دی تھی، مہربانی کرکے مجھے بتائیں کہ تمہارے اندر کون سا ایسا عمل ہے جس کی وجہ سے بارگاہ رسالت میں تمہیں یہ بلند مقام ملا؟ یہ سن کر اس انصاری کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور بصد اصرار مجھے بتایا کہ اور تو کوئی عمل میرے پاس نہیں ہے سوائے اس کے کہ میں: لا اجد فی نفسی لاحد من المسلمین غشا ولا حسداً (اپنے دل میں کسی مسلمان کے لیے کھوٹ اور حسد نہیں رکھتا) حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ اب مجھے بات سمجھ میں آگئی کہ یہی وہ عظیم عمل ہے جس کی وجہ سے ان کو یہ عظمت حاصل ہوئی۔ (جواہر التاریخ الاسلامی)

جواب: سوال میں ذکرکردہ روایت کو فضائل کے باب میں بیان کیا جاسکتا ہے۔
ذیل میں اس روایت کا ترجمہ اور اسنادی حیثیت ذکر کی جاتی ہے:
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺنے فرمایا ” ابھی تمہارے پاس ایک جنتی شخص آنے والا ہے‘‘ ،چنانچہ ایک انصاری صحابی اس حالت میں تشریف لائے کہ وضو کا پانی ان کی داڑھی سے ٹپک رہا تھا اور انہوں نے اپنے جوتے بائیں ہاتھ میں اٹھارکھے تھے، دوسرے دن بھی آپ ﷺنے (یہی) فرمایا: ابھی تمہارے پاس ایک جنتی شخص آنے والا ہے، وہ شخص اسی طرح تشریف لائے (وضو کا پانی ان کی داڑھی سے ٹپک رہا تھا اور انہوں نے اپنے جوتے بائیں ہاتھ میں اٹھارکھے تھے) تیسرے دن بھی آپ ﷺنے (یہی) فرمایا: ابھی تمہارے پاس ایک جنتی شخص آنے والا ہے، (وضو کا پانی ان کی داڑھی سے ٹپک رہا تھا اور انہوں نے اپنے جوتے بائیں ہاتھ میں اٹھارکھے تھے)جب نبی ﷺاٹھ کر چل دیے تو حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما ان انصاری صحابی کے پیچھے ہولیے اور اس انصاری سے کہنے لگے حضرت! مجھ میں اور میرے والد میں کچھ بول چال ہوگئی ہے جس پر میں قسم کھا بیٹھا ہوں کہ تین دن تک اپنے گھر نہیں جاؤں گا،لہذا اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس مدت تک اپنے یہاں رہنے کی مجھے اجازت مرحمت فرمائیں، انصاری صحابی نے جواب دیا ٹھیک ہے۔
حضرت انس فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمر و کا بیان ہے کہ میں نے ایک رات یا تین رات ان کے یہاں گزاری لیکن دیکھا کہ وہ رات میں کوئی عبادت نہیں کرتے، صرف اتنا کرتے کہ رات میں جب بھی بستر پر کروٹ بدلتے تو اللہ کا ذکر کرتے اور اس کی بڑائی بیان کرتے ،یہاں تک کہ فجر کے لیے بیدار ہوتے ، عبد اللہ بن عمر و کا بیان ہے کہ(ایک بات یہ بھی دیکھی کہ) میں نے ان کے منہ سے سوائے کلمہ خیر کے اور کچھ نہیں سنا، جب تین دن پورے ہوگئے تو مجھے ان کا عمل بہت ہی ہلکا سا معلوم ہونے لگا ۔تو میں نے کہا : اے اللہ کے بندے! دراصل نہ تو میرے اور میرے والد صاحب کے درمیان کوئی ایسی باتیں ہوئی تھیں نہ میں نے ناراضگی کے باعث گھر چھوڑا تھا بلکہ واقعہ یہ ہوا کہ تین مرتبہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ’’ ابھی ایک جنتی شخص آ رہا ہے‘‘ اور تینوں دن آپ ہی تشریف لائے ، تو میں نے ارادہ کیا کہ آپ کے پاس رہ کر کر آپ کا عمل دیکھوں (تا کہ میں بھی ویسا عمل کرسکوں) لیکن میں دیکھ رہا ہوں آپ کوئی زیادہ عمل نہیں کرتے ، پھر کیا وجہ ہے کہ آپ اس مقام کو پہنچے جس کی بنیاد پر اللہ کے رسول ﷺنے یہ بات کی ہے ؟
انہوں نے کہا : بس تم میرے اعمال تو دیکھ چکے ان کے سوا اور کوئی خاص پوشیدہ عمل تو ہے نہیں ،پھر جب میں وہاں سے واپسی کے لیے مڑا تو انہوں نے مجھے آواز دے کر بلایااور فرمایا :عمل تو وہی ہے جو تم نے دیکھا، البتہ ایک بات ضرور ہے کہ میرے دل میں کبھی کسی مسلمان سے دھوکہ بازی کا ارادہ بھی نہیں ہوا اور نہ ہی اللہ تعالی کی دی ہوئی بھلائی اور نعمت پر ان سے حسد کرتا ہوں۔ حضرت عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہما نے کہا : اسی عمل نے آپ کو اس درجہ تک پہنچایا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو ہر ایک کے بس کی نہیں۔(سنن نسائی کبری ،حدیث نمبر: 10633)
تخريج الحديث:
۱۔ اس روایت کو امام نسائی (م303ھ) نے’’السنن الکبری‘‘(9 / 318،رقم الحديث: 10633،ط:مؤسسة الرسالة) میں نقل کیا ہے ۔
۲۔ امام عبدالرزاق بن ہمام (م211ھ)نے’’مصنف عبدالرزاق‘‘ (11 / 287،رقم الحدیث:20559،ط:المجلس العلمي) میں نقل کیا ہے ۔
۳۔امام احمد بن حنبل (م241ھ) نے ’’مسند أحمد ‘‘(20 / 124،رقم الحديث:12697،ط: مؤسسة الرسالة) میں نقل کیا ہے ۔
۴۔امام عبد ابن حمید(م249ھ) نے ’’مسند عبد بن حمید‘‘(المنتخب) ( 350،رقم الحدیث:1159،ط:مکتبة السنة) میں نقل کیا ہے ۔
۵۔امام طبرانی (م360ھ) نے ’’مكارم الأخلاق‘‘(327،رقم الحديث:72،ط:دارالكتب العلمية) میں نقل کیا ہے ۔
۶۔ امام بیہقی (م458ھ) نے ’’شعب الإيمان‘‘ (5/ 264 – 265،رقم الحديث: 6605) میں نقل کیا ہے ۔
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت :
علامہ منذری (م656ھ) ،علامہ ہیثمی (م807ھ) اورعلامہ بوصیری (م840ھ) نے اس حدیث کو’’صحیح ‘‘قرار دیا ہے لیکن امام دارقطنی (م385 ھ)نے اس حدیث کو معلول قرار دیا ہے کیونکہ امام زہری نے یہ حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نہیں سنی ،اس لیے کہ امام زہری سے نقل کرنے والے تین روات شعیب بن ابی حمزہ ،عقیل اور اسحاق بن راشد نے اس حدیث کو امام زہری سے حدثني من لا أتهم، عن أنس کے طریق سے نقل کیا ہے اور یہی بات علامہ مزی (م742ھ)نے ’’تحفۃ الأشراف‘‘ میں امام حمزہ بن محمد کنانی سے نقل کی ہے ۔ اور امام بیہقی (م458ھ) نے بھی شعب الإیمان (5 / 264-265) (6606)میں اسی طریق کو نقل کیا ہے۔
علامہ ابن حجر عسقلانی (م852ھ) نے بھی ’’ النكت الظراف على الأطراف‘‘( 1/395)( 1550)میں اس حدیث کو ’’معلول‘‘ کہا ہے۔
خلاصہ ٔکلام:
اس حدیث کی تصحیح میں اہلِ علم کا اختلاف پایا جاتا ہے ،بعض اہل ِ علم نے اس کو ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے اور بعض نے اس کو ’’معلول‘‘قراردیا ہےاور بظاہر ان ہی اہلِ علم کا قول زیادہ راجح معلوم ہوتا ہے، واللہ اعلم بالصواب۔
البتہ چونکہ اس حدیث کا تعلق فضائل کے باب سے ہے، نیز اس کا شاہد بھی موجود ہے، اس لیے اس حدیث کو بیان کرنا درست ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

السنن الكبرى للنسائي: (رقم الحديث: 10633، 318/9، ط: مؤسسة الرسالة)

أخبرنا سويد بن نصر، قال: أخبرنا عبد الله، عن معمر، عن الزهري، عن أنس بن مالك، رضي الله عنه قال: " بينما نحن جلوس عند رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «يطلع الآن رجل من أهل الجنة» . فطلع رجل من الأنصار تنطف لحيته ماء من وضوئه، متعلق نعليه في يده الشمال، فلما كان من الغد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يطلع عليكم الآن رجل من أهل الجنة» . فطلع ذلك الرجل على مثال مرتبة الأولى، فلما كان من الغد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يطلع عليكم الآن رجل من أهل الجنة» . فطلع ذلك الرجل على مثل مرتبة الأولى، فلما قام رسول الله صلى الله عليه وسلم اتبعه عبد الله بن عمرو بن العاص، فقال: إني غاضبت أبي، فأقسمت أن لا أدخل عليه ثلاث ليال، فإن رأيت أن تؤويني إليك حتى يحل يميني فعلت. قال: نعم. قال أنس: فكان عبد الله بن عمرو يحدث أنه بات معه ليلة أو ثلاث ليال، فلم يره قام من الليل ساعة، غير أنه إذا انقلب إلى فراشه ذكر الله عز وجل وكبر حتى يقوم لصلاة الفجر، فيسبغ الوضوء. قال عبد الله: غير أني لا أسمعه يقول إلا خيرا، فلما مضت الثلاث الليالي كدت أحقر عمله، قلت: يا عبد الله، إنه لم يكن بيني وبين أبي غضب ولا هجرة، ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لك ثلاث مرات في ثلاث مجالس: «يطلع الآن عليكم رجل من أهل الجنة» ، فطلعت أنت تلك الثلاث مرات، فأردت آوي إليك، فأنظر عملك، فلم أرك تعمل كثير عمل، فما الذي بلغ بك ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: ما هو إلا ما رأيت. فانصرفت عنه، فلما وليت دعاني، فقال: ما هو إلا ما رأيت، غير أني لا أجد في نفسي غلا لأحد من المسلمين، ولا أحسده على خير أعطاه الله إياه. قال عبد الله بن عمرو: وهذه التي بلغت بك، وهي التي لا يطيق مطيق ".

أخرجه النسائي في ’’الكبرى‘‘ (9 / 318) (10633) وأحمد في ’’مسنده‘‘(20 / 124) (12697) وعبد بن حميد في ’’المنتخب من مسنده‘‘ (1 / 350) (1159) وعبد الرزاق في ’’مصنفه‘‘ (11 / 287) (20559) و الطبراني في ’’مكارم الأخلاق‘‘(327)(72)والخرائطي في ’’مساوئ الأخلاق‘‘(342)(775) و ابن السني في ’’عمل اليوم والليلة‘‘(679) والبزار في ’’مسنده‘‘ (2/ 410/ 1981 - كشف)، والبيهقي في ’’شعب الإيمان‘‘ (5/ 264 – 265)( 6605)، والبغوي في ’’شرح السُّنة‘‘ (13/ 112 - 113/ 3535)، وقوّام السُّنة الأصبهاني في "الترغيب والترهيب" (2/ 52 - 53/ 1135)و الضياء المقدسي في "الأحاديث المختارة" (7 / 186) (2619) .

هذا الحديث أورده المنذري في ’’الترغيب والترهيب‘‘(3/348)(4383)وقال: رواه أحمد بإسناد على شرط البخاري ومسلم.

و’’الهيثمي‘‘ في ’’مجمع الزوائد‘‘(8 / 79)(13049)وقال : رجال أحمد رجال الصحيح وكذلك أحد إسنادي البزار إلا أن سياق الحديث لابن لهيعة.

و’’البويصيري‘‘ في ’’الإتحاف‘‘(6 / 78)(5383)وقال: هذا إسناد صحيح على شرط البخاري ومسلم.

و أعله ’’الدارقطني ‘‘ في ’’العلل‘‘(12 / 203) (2622)وقال: فقال: اختلف فيه على الزهري؛
فرواه عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري، قال: حدثني أنس.(وقال) ابن المبارك: عن معمر، عن الزهري، عن أنس.
وكذلك قال إبراهيم بن زياد العبسي، عن الزهري.وهذا الحديث لم يسمعه الزهري، عن أنس.رواه شعيب بن أبي حمزة، وعقيل، عن الزهري قال: حدثني من لا أتهم، عن أنس، وهو الصواب.

وقال المزي في’’ تحفة الأشراف‘‘( 1/395)(1550): قال حمزة بن محمد الكناني الحافظ: لم يسمعه الزهري من أنس ؛ رواه عن رجل عن أنس , كذلك رواه عقيل وإسحاق بن راشد وغير واحد عن الزهري, وهو الصواب.

وقال ابن حجر في’’ النكت الظراف على الأطراف‘‘( 1/395)( 1550): وذكر البيهقي في الشعب أن شعيباً رواه عن الزهري حدثني من لا أتهم عن أنس . ورواه معمر عن الزهري أخبرني أنس؛ كذلك أخرجه أحمد في المسند عنه وروينا في ’’مكارم الأخلاق‘‘وفي عدة أمكنة عن عبدالرزاق. قد ظهر أنه معلول .

وقد صححه العراقي في تخريج الإحياء فقال: رواه أحمد بسند صحيح على شرط الشيخين, ثم تبين له أن ذلك غير صحيح كما ذكر الزبيدي في (إتحاف السادة المتقين 8/51) أنه وجد بخطه في هامش التخريج المذكور عند قوله (صحيح): له علة ؛ فإن الزهري لم يسمعه عن أنس فيما يقال.

وللحديث شاهد رواه البيهقي في’’شعب الإيمان‘‘(5/266) (6607) من طريق معاذ بن خالد أنا صالح عن عمرو بن دينار عن سالم بن عبد الله عن أبيه قال : كنا جلوسا عند رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : ليطلعن عليكم رجل من هذا الباب من أهل الجنة ... الحديث بنحوه .

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1594 Jun 13, 2023
abhi tumhare / tumharay pas aik janati shakhs aane / aanay wala hai"... riwayat ki tehqeeq

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.