سوال:
جناب راج محمد ولد لال محمد نے اپنے تمام عاقل بالغ ورثاء کی موجودگی میں اپنی زمین کا کچھ حصہ عبد القیوم کو فروخت کر کے حج کیا۔
عبد القیوم کے بیٹے محمد یونس نے اپنے باپ کی اجازت کے بغیر وہ زمین ابراہیم کو فروخت کی، اس پر عبد القیوم کو پتا چلا تو اس نے اس پر سخت نکیر کی اور اس زمین کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا (یعنی اپنی رقم واپس لیں اور زمین واپس دیں)جس پر ابراہیم نے زمین واپس کرنے سے انکار کردیا۔
پوچھنا یہ ہے کہ باپ کی اجازت کے بغیر اس فروخت کی گئی زمین کا کیا حکم ہے؟ قرآن وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
جواب: واضح رہے کہ کسی انسان کے لیے صرف اپنی مملوکہ چیز بیچنا جائز ہے، کسی اور کی مملوکہ چیز اصل مالک کی اجازت کے بغیر بیچنا جائز نہیں ہے۔
پوچھی گئی صورت میں بیٹے نے والد کی زمین ان کی اجازت کے بغیر فروخت کی تھی، اس لیے یہ بیع والد کی اجازت پر موقوف تھی، لیکن اب چونکہ والد نے بیع کو رد کرتے ہوئے زمین کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے، اس لیے یہ بیع باطل ہوگئی ہے، لہذا مشتری پر لازم ہے کہ زمین کا قبضہ واپس کرکے اپنی رقم وصول کرلے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (200/6، ط: دار الفکر)
لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته۔
فتح القدیر: (248/6، ط: دار الفکر)
ومنها شرط النفاذ وهو الملك والولاية، حتى إذا باع ملك غيره توقف النفاذ على الإجازة ممن له الولاية۔
فقه البیوع: (1196/2، ط: مكتبة معارف القران)
198- البیع الموقوف ما توقف نفاذہ علی إذن غير العاقد.
199- الفضولي من تصرف في حق الغير نيابة عنه بغير إذنه. وبيعه موقوف على إذن من له الإجازة. فإن باع فضولي مال غيره، فالبيع موقوف على إجازة المالك. فإن أجازه نفذ البيع من وقت العقد.
202- الإجازة من قِبل المالك قد تكون قولا بما يدل على رضاه بالبيع، مثل قوله: "أجزت". وقد تكون فعلا، مثل أن يقبل الثمن أو بعضه، أو يهبه للمشتري. أما إن كان حاضرا وقت البيع وسكت، فالسكوت لا يعتبر إجازة.
206-إن لم يجز من له الإجازة البيع ، فالبيع باطل۔ وإن كان الفضولي قبض الثمن من المشترى، وجب ردُّه إلى المشتری إن كان قائماً.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی