سوال:
میری عمر 31 سال ہے اور میری قضا نمازیں 5 سال سے زیادہ ہیں۔ میں نے پہلے ہی قضا نمازوں کی ادائیگی شروع کر دی ہے اور میں نے فرائض کو پورا کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ تاہم میں پوری قضا نمازوں کا فدیہ بھی ادا کرنا چاہتا ہوں تاکہ اگر میں اپنی ذمہ داری پوری کرنے سے پہلے فوت ہو جاؤں تو مجھے کسی وارث پر انحصار نہ کرنا پڑے۔
میں اس بارے میں آپ کی رہنمائی کا مشکور ہوں گا کہ کیا نمازوں فدیہ ادا کرنا جائز ہے جبکہ میں زندہ ہوں اور ابھی تک اپنی قضا نماز پوری کر رہا ہوں؟ اس کے علاوہ میں فی نماز کی موجودہ فدیہ کی رقم بھی جاننا چاہتا ہوں۔
جواب: 1) واضح رہے کہ زندگی میں فوت شدہ نمازوں کا فدیہ نہیں دیا جاسکتا، بلکہ ان کی قضاء کرنا ضروری ہے۔ تاہم یہ وصیت کی جاسکتی ہے کہ میرے مرنے کے بعد فوت شدہ نمازوں کا فدیہ ادا کر دیا جائے۔
پوچھی گئی صورت میں قضاء نمازوں کا فدیہ زندگی میں دینا درست نہیں ہے اور نہ ہی قضاء نمازیں اس سے معاف ہوں گی، بلکہ آپ اپنی قضاء نمازوں کے پڑھنے کے سلسلے کو جاری رکھیں، اور اپنے ساتھ ایک ڈائری میں وقتا فوقتاً یہ وصیت لکھ دیا کریں کہ میرے ذمہ اب اتنی نمازوں کی قضاء رہ گئی ہے، اگر میری زندگی میں یہ نمازیں پوری نہ ہوسکیں تو ان کا فدیہ ادا کردیا جائے۔
2) ایک نماز کا فدیہ ایک صدقہ فطر (تقریباً پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت) کے برابر ہے، اور روزانہ کی وتر سمیت چھ نمازیں شمار کی جائیں گی، اس حساب سے ایک دن کی نمازوں کے چھ فدیے ادا کرنے ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (74/2، ط: سعید)
(قوله ولو فدى عن صلاته في مرضه لا يصح) في التتارخانية عن التتمة: سئل الحسن بن علي عن الفدية عن الصلاة في مرض الموت هل تجوز؟ فقال لا. وسئل أبو يوسف عن الشيخ الفاني هل تجب عليه الفدية عن الصلوات كما تجب عليه عن الصوم وهو حي؟ فقال لا. اه. وفي القنية: ولا فدية في الصلاة حالة الحياة بخلاف الصوم. اه ".
الدر المختار: (72/2، ط: سعید)
(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی