سوال:
میرا سوال ہے کہ مرزائیوں کا سوشل بائیکاٹ کرنا کہاں سے ثابت ہے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یا پھر خلفاء راشدین کے دور میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟
دوسری بات سوشل بائیکاٹ میں ان کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہوتے ہیں، حالانکہ بچے تو فطرت اسلام پر پیدا ہوتے ہیں جن کو کھانے پینے کی اشیاء نہیں ملتی، وہ بھوک کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں تو کیا ان کا سوشل بائیکاٹ کرنا صحیح ہے؟
جواب: مرزائیوں اور اس طرح کے معاندینِ اسلام سے سوشل بائیکاٹ کرنا قرآن اور حدیث سے ثابت ہے، چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالی فرماتے ہیں: اِذَا سَمِعۡتُمۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکۡفَرُ بِھَا وَ یُسۡتَہۡزَاُ بِھَا فَلَا تَقۡعُدُوۡا مَعَھُمۡ حَتّٰی یَخُوۡضُوۡا فِیۡ حَدِیۡثٍ غَیۡرِہٖۤ ۫ۖ ( النساء: 140)
" جب تم اللہ کی آیتوں کو سنو کہ ان کا انکار کیا جارہا ہے، اور ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے تو ایسے لوگوں کے ساتھ اس وقت تک مت بیٹھو جب تک وہ کسی اور بات میں مشغول نہ ہوجائیں "۔
اور ایک اور مقام پرارشاد باری تعالی ہے:
وَ اِذَا رَاَیۡتَ الَّذِیۡنَ یَخُوۡضُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِنَا فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ حَتّٰی یَخُوۡضُوۡا فِیۡ حَدِیۡثٍ غَیۡرِہٖ ؕوَ اِمَّا یُنۡسِیَنَّکَ الشَّیۡطٰنُ فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّکۡرٰی مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ( الانعام: 68 )
"اور جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کو برا بھلا کہنے میں لگے ہوئے ہیں، تو ان سے اس وقت تک کے لیے الگ ہوجاؤ جب تک وہ کسی اور بات میں مشغول نہ ہوجائیں، اور اگر کبھی شیطان تمہیں یہ بات بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو"۔
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایسے کفار و فجار اور ظالم لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بعد میں بھی درست نہیں، کیونکہ سورہ انعام کی اسی آیت کے آخر میں اللہ تبارک وتعالی فرماتے ہیں: فَلا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ یعنی یاد آجانے کے بعد ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھیں، اور ظاہر ہے کہ ظالم اس گفتگو کو ختم کر دینے کے بعد بھی ظالم ہی ہے، اسی لئےاس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور تعلق سے بعد میں بھی احتراز لازم ہے۔( احکام القرآن للجصاص، 277/3)
مرزائیوں کا عقیدہ ختم نبوت کے متلعق قرآنی آیات کا انکار اور ان کا مذاق اڑانا بالکل واضح ہے، لہذا ان آیات کی رو سے ان سے قطع تعلقی اور بائیکاٹ کرنا لازم ہے۔
صحیح مسلم کی روایت میں آپ ﷺ اس طرح کے بے دینوں سے قطع تعلقی کے متعلق فرماتے ہیں" کہ آخری زمانے میں کچھ لوگ کذاب دجال بہت جھوٹے دھوکہ باز آئیں گے۔ وہ تم سے ایسی باتیں کریں گے جو نہ تم نے سنی ہوں گی اور نہ تمہارے باب دادا نے سنی ہوں گی، لہذا اے میری امت تم ان کو اپنے سے بچاؤ اور اپنے آپ کو ان سے بچاؤ، کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کریں، کہیں تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔" ( صحیح مسلم، حدیث نمبر: 7 )
غلام احمد قادیانی اور اس کے ماننے والوں سے کوئی بڑا جھوٹا اور دھوکہ باز نہیں ہوسکتا۔
ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: " قضا اور قدر کو جھٹلانے والے اس امت کے مجوسی ہیں، اگر وہ بیمار پڑیں تو ان کو پوچھنے مت جاؤ اور اگر وہ مرجائیں تو ان کے مرنے پر ان کے جنازہ وغیرہ میں مت شریک ہو، اگر تم سے ملیں تو ان کو سلام مت کرو"( ابن ماجہ، حدیث نمبر :92 )
حالانکہ یہ لوگ قادیانیوں کی طرح نماز بھی پڑھتے ہیں، روزہ بھی رکھتے ہیں، جب ان سے قطع تعلقی اور بائیکاٹ کا حکم ہے تو مرزائیوں جیسے بے دینوں کے لیے بطریق اولیٰ ہوگا۔
عہد نبوت کے بعد عہد خلافت ِراشدہ میں بھی اس طرح کے بد دینوں سے اسی طرزعمل (بائیکاٹ) کا ثبوت ملتا ہے۔
چنانچہ عہد فاروقی میں ایک شخص صبیغ عراقی قرآن کریم کی آیات کے ایسے معانی بیان کرتا تھا، جس میں ہوائے نفس کا دخل تھا، اور اُن سے مسلمانوں کے عقائد میں شکوک وشبہات کا راستہ کھلتا تھا، یہ شخص فوج میں تھا، جب عراق سے مصر گیا اور حضرت عمرو بن العاص گورنر مصر کو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے اس کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ بھیجا اور صورت حال لکھی، حضرت عمرؓ نے نہ اس کا موقف سنا اور نہ دلائل۔ بحث ومباحثہ میں وقت ضائع کئے بغیر فوراً کھجورکی تازہ شاخیں منگوائیں اور خود اپنے ہاتھ سے اس کے سر پر بے تحاشہ مارنے لگے، اتنا مارا کہ خون بہنے لگا۔ وہ چیخ اُٹھا : ’’امیر المومنین! آپ مجھے قتل ہی کرنا چاہتے ہیں تو مہربانی کیجئے تلوار لے کر میرا قصہ ختم کردیجیے، اور اگر صرف میرے دماغ کا خنّاس نکالنا مقصود ہے تو آپ کو اطمینان دلاتا ہوں کہ اب وہ خناسیت نکل چکی ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے اُسے چھوڑدیا اور چند دن مدینہ رکھ کر اسے عراق بھیج دیا اور حضرت ابو موسیٰ اشعری کو لکھا " کہ کوئی مسلمان اس کے پاس نہ بیٹھے"۔ اس بائیکاٹ سے اس شخص پر عرصۂ حیات تنگ ہوگیا تو حضرت ابو موسیؓ نے حضرت عمرؓ کو لکھا کہ اب اس کی حالت ٹھیک ہوگئی ہے، تب حضرت عمر نے لوگوں کو اس کے پاس بیٹھنے کی اجازت دی۔ (سنن الدارمى، حدیث نمبر: 150)
نیز مرزائیوں سے بائیکاٹ کے ضمن میں اگر ان کے بچے بھی اس کے زد میں آئیں تو اس کی پرواہ نہیں کی جائے گی اور وہ بھی ان کے حکم میں ہوں گے۔ اس کی مثال بھی عہد نبوی سے ملتی ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں صعب بن جثّامۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ رات کی تاریکی میں مشرکین پر حملہ ہوتاہے تو عورتیں اور بچے بھی زد میں آجاتے ہیں فرمایا: وہ بھی انہی میں شامل ہیں۔ ( صحیح بخاری، حدیث نمبر: 3012)
جب مشرکین کے بچوں پر تبعاً حملے کی اجازت ہے تو مرزائیوں سے سوشل بائیکاٹ کے ضمن میں اگر ان کے بچے آئیں تو اس کی بھی پرواہ نہیں کی جائے گی۔
بہر حال مرزائیوں سے سوشل بائیکاٹ کے ثبوت کے متعلق بطور مثال کے ایک دو آیات اور احادیث مبارکہ کا ذکر کیا ہے، ورنہ بے شمار قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ سے اس طرح سے بد دینوں سے بائیکاٹ اور قطع تعلقی ثابت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (الجھاد، باب اھل الدار یبیتون فیصاب الولدان، رقم الحدیث: 3012)
عَنِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ: مَرَّبِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْأَبْوَاءِ - أَوْ بِوَدَّانَ - وَسُئِلَ عَنْ أَهْلِ الدَّارِ يُبَيَّتُونَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَيُصَابُ مِنْ نِسَائِهِمْ وَذَرَارِيِّهِمْ، قَالَ : " هُمْ مِنْهُمْ ". وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ : " لَا حِمَى إِلَّا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
صحيح مسلم: (باب النهي عن الرواية عن الضعفاء و الاحتياط فى تحملها، رقم الحدیث: 7)
عَن أَبي هُرَيْرَةَ قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ، يَأْتُونَكُمْ مِنَ الْأَحَادِيثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ، فَإِيَّاكُمْ وَإِيَّاهُمْ، لَا يُضِلُّونَكُمْ وَلَا يَفْتِنُونَكُمْ .
سنن إبن ماجة: (باب فى القدر، رقم الحدیث: 92)
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ مَجُوسَ هَذِهِ الْأُمَّةِ الْمُكَذِّبُونَ بِأَقْدَارِ اللَّهِ إِنْ مَرِضُوا فَلَا تَعُودُوهُمْ، وَإِنْ مَاتُوا فَلَا تَشْهَدُوهُمْ، وَإِنْ لَقِيتُمُوهُمْ فَلَا تُسَلِّمُوا عَلَيْهِمْ ".
سنن الدارمى: (باب من ھاب الفتیا و کرہ التنطع و التبدع، رقم الحدیث: 150)
عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ صَبِيغًا الْعِرَاقِيَّ جَعَلَ يَسْأَلُ عَنْ أَشْيَاءَ مِنَ الْقُرْآنِ فِي أَجْنَادِ الْمُسْلِمِينَ حَتَّى قَدِمَ مِصْرَ، فَبَعَثَ بِهِ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَلَمَّا أَتَاهُ الرَّسُولُ بِالْكِتَابِ فَقَرَأَهُ، فَقَالَ : أَيْنَ الرَّجُلُ ؟ قَالَ : فِي الرَّحْلِ. قَالَ عُمَرُ : أَبْصِرْ أَنْ يَكُونَ ذَهَبَ فَتُصِيبَكَ مِنِّي بِهِ الْعُقُوبَةُ الْمُوجِعَةُ. فَأَتَاهُ بِهِ، فَقَالَ عُمَرُ : تَسْأَلُ مُحْدَثَةً ؟ فَأَرْسَلَ عُمَرُ إِلَى رَطَائِبَ مِنْ جَرِيدٍ، فَضَرَبَهُ بِهَا حَتَّى تَرَكَ ظَهْرَهُ دَبَرَةً، ثُمَّ تَرَكَهُ حَتَّى بَرَأَ، ثُمَّ عَادَ لَهُ، ثُمَّ تَرَكَهُ حَتَّى بَرَأَ، فَدَعَا بِهِ لِيَعُودَ لَهُ. قَالَ: فَقَالَ صَبِيغٌ : إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ قَتْلِي فَاقْتُلْنِي قَتْلًا جَمِيلًا، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ أَنْ تُدَاوِيَنِي فَقَدْ وَاللَّهِ بَرَأْتُ. فَأَذِنَ لَهُ إِلَى أَرْضِهِ، وَكَتَبَ إِلَى أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : أَلَّا يُجَالِسَهُ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ. فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى الرَّجُلِ، فَكَتَبَ أَبُو مُوسَى إِلَى عُمَرَ أَنْ قَدْ حَسُنَتْ تَوْبَتُهُ. فَكَتَبَ عُمَرُ أَنِ ائْذَنْ لِلنَّاسِ بِمُجَالَسَتِهِ.
أحكام القرآن للجصاص: (277/3، ط: دار احياء التراث العربى _ بيروت)
وروي عن الحسن أن ما اقتضته الآية من إباحة المجالسة إذا خاضوا في حديث غيره منسوخ بقوله فلا تقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمين.
الدر المختار: (64/4، ط: سعید)
وأفتى الناصحي بوجوب قتل كل مؤذ وفي شرح الوهبانية: ويكون بالنفي عن البلد، وبالهجوم على بيت المفسدين، وبالإخراج من الدار، وبهدمها.
رد المحتار : (65/4، ط: سعيد)
قال في أحكام السياسة وفي المنتقى: وإذا سمع في داره صوت المزامير فأدخل عليه؛ لأنه لما أسمع الصوت فقد أسقط حرمة داره. وفي حدود البزازية وغصب النهاية وجناية الدراية: ذكر الصدر الشهيد عن أصحابنا أنه يهدم البيت على من اعتاد الفسق وأنواع الفساد في داره، حتى لا بأس بالهجوم على بيت المفسدين. وهجم عمر - رضي الله عنه - على نائحة في منزلها وضربها بالدرة حتى سقط خمارها فقيل له فيه، فقال: لا حرمة لها بعد اشتغالها بالمحرم والتحقت بالإماء..... وعن عمر رضي الله تعالى عنه أنه أحرق بيت الخمار. وعن الصفار الزاهدي الأمر بتخريب دار الفاسق.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی