عنوان: فرعون کے آدھی رات کو اللّٰہ تعالیٰ سے قحط سالی ختم ہونے کے لیے دعا کرنے کا واقعہ، اس کی تحقیق (10695-No)

سوال: فرعون کے پاس کچھ لوگ آئے اور کہا کہ بارش نہیں ہو رہی ہے اور دریائے نیل بند ہوگیا، قحط سالی آگئی ہے، آپ جاری کر دیجئے۔ فرعون نے کہا کہ دریا کل جاری ہو جائے گا، رات کے وقت اٹھا تاج شاہی پہنا محل سے ننگے پاؤں چل پڑا اور ’’دریائے نیل‘‘ کی طرف دیکھا تو دریا خشک پڑا تھا، تاج زمین پر رکھا اور اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوکر کہا کہ اے اللہ میں جانتا ہوں کہ آپ ہی مالک ہیں، میں نے ایک دعویٰ کیا اور وہ بھی غلط، میں آپ سے دعا کرتا ہوں کہ دریا جاری فرما۔ فرعون نے روکر گڑگڑا کر عاجزی اور انکساری کے ساتھ دعا مانگی۔ دعا کا مانگنا تھا کہ پانی دریا سے پانی آنا شروع ہوگیا۔ یہ واقعہ کس حد تک درست ہے؟ اس واقعہ کو بیان کرنے والے کہہ رہے تھے کہ یہ واقعہ تفسیر روح المعانی میں موجود ہے؟

جواب: فرعون کے پاس کچھ لوگ آئے اور کہا کہ بارش نہیں ہو رہی ہے اور دریائے نیل بند ہوگیا، قحط سالی آگئی ہے، آپ جاری کر دیجئے۔ فرعون نے کہا کہ دریا کل جاری ہو جائے گا، رات کے وقت اٹھا تاج شاہی پہنا محل سے ننگے پاؤں چل پڑا اور ’’دریائے نیل‘‘ کی طرف دیکھا تو دریا خشک پڑا تھا، تاج زمین پر رکھا اور اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوکر کہا کہ اے اللہ میں جانتا ہوں کہ آپ ہی مالک ہیں، میں نے ایک دعویٰ کیا اور وہ بھی غلط، میں آپ سے دعا کرتا ہوں کہ دریا جاری فرما۔ فرعون نے روکر گڑگڑا کر عاجزی اور انکساری کے ساتھ دعا مانگی۔ دعا کا مانگنا تھا کہ پانی دریا سے پانی آنا شروع ہوگیا۔ یہ واقعہ کس حد تک درست ہے؟ اس واقعہ کو بیان کرنے والے کہہ رہے تھے کہ یہ واقعہ تفسیر روح المعانی میں موجود ہے؟
فرعون کے آدھی رات کو اللّٰہ تعالیٰ سے قحط سالی ختم ہونے کے لیے دعا کرنے کا واقعہ، اس کی تحقیق
الجواب حامدا و مصلیا۔۔۔
بطور تمہید یہ جاننا چاہیے کہ آیا فرعون کافرِ معاند تھا یا کافرِ دہریہ؟ یعنى فرعون اللہ تعالى کے وجود کا تو قائل تھا، لیکن وہ ضد اور ہٹ دھرمى کى وجہ سے اللہ تعالى کى ربوبیت کا اقرار نہیں کرتا تھا، یا وہ اللہ تعالى کے وجود کا سرے سے قائل ہى نہیں تھا، بلکہ دہریہ تھا؟
مفسرین کرام رحمہم اللہ کے اس بارے میں دو نقطہ نظر ہیں، اکثر مفسرین کرام کى رائے یہ ہے کہ فرعون کافرِ دہریہ تھا۔
سوال میں جو واقعہ مذکور ہے یہ واقعہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم سے مرفوعا منقول نہیں ہے، بلکہ یہ واقعہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے موقوفا مروى ہے، جسے امام ابن أبی حاتم رحمہ اللہ (م 327ھ) نے اپنى تفسیر میں درج ذیل الفاظ کے ساتھ ذکر فرمایا ہے:
ترجمہ:
جب اللہ تعالى نے آل فرعون کى قحط سالى کے عذاب سے پکڑ فرمائى، تو سارے درخت سوکھ گئے اور ان کے مویشى مرنے لگے یہاں تک کہ مصر کا دریائے نیل خشک ہو گیا، تو فرعون کے ماننے والے اس کے پاس اکٹھے ہو کر آئے اور اس سے کہا: اگر تو اپنے متعلق جس طرح (خدائی) کا دعویٰ کرتا ہے، تو پھر نیلِ مصر میں پانی لا کے دکھا، فرعون نے کہا: صبح تمہارے پاس پانی آ جائے گا، جب وہ لوگ فرعون کے پاس سے چلے گئے، تو فرعون نے اپنے آپ سے کہا: یہ میں نے کیا کر دیا، کیا میں نیلِ مصر میں پانی جاری کرنے پر قادر ہوں، صبح کو جب وہ آئیں گے اور پانی نہیں ہو گا، تب تو وہ مجھے جھٹلا دیں گے؟ چنانچہ جب آدھی رات کا وقت ہوا تو فرعون کھڑا ہوا اور اس نے غسل کیا اور اون کی پوشاک پہنی اور چلتا ہوا نیلِ مصر میں آ پہنچا اور دریائے نیل کے درمیان میں کھڑے ہو کر کہا: اے اللہ تجھے معلوم ہے کہ میرا یہ ماننا ہے کہ تو ہی دریائے نیل کو پانی سے بھر سکتا ہے، لہذا تو اس کو پانی سے بھر دے، بس اس کے بعد اسے پانی کی آواز سے پتا چلا کہ پانی آ رہا ہے، چنانچہ وہ چھلانگیں لگاتا ہوا دریائے نیل سے بھاگا اور دریائے نیل پانی سے ٹھاٹھیں مارتا ہوا آیا، جب اللہ تعالٰی نے ان کو اس پانی کے ذریعے ہلاک کرنا چاہا۔
(تفسیر ابن ابی حاتم: حدیث نمبر: 8841)
اس روایت کو حکیم ترمذی رحمہ اللّٰہ (م 285 ھ) نے اپنی کتاب "نوادر الاصول" جلد 3 ص 91 رقم الحدیث (587) میں بھی نقل کیا ہے۔
حدیث کا حکم:
امام ابن جوزی رحمہ اللّٰہ (م 597 ھ) نے اپنی کتاب "زاد المسير في علم التفسير" ص 513، ط: دار ابن حزم، میں اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے: یہ حدیث "صحت" سے دور ہے (صحیح نہیں ہے) کیونکہ فرعون تو کافرِ دہریہ تھا (وہ تو کسی خدا کو مانتا ہی نہیں تھا)، اور اگر یہ حدیث صحیح مان لی جائے، تب اس کی یہ توجیہ کی جائے گی کہ فرعون کا اللہ تعالیٰ کے وجود کا اقرار شیطان کے اقرار کی طرح تھا، گویا ایسی صورت میں فرعون اللہ تعالیٰ کے وجود کا تو قائل تھا لیکن کفرِ عناد (ضد اور ہٹ دھرمی) کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتا تھا۔
علامہ آلوسی رحمہ اللّٰہ (م 1270ھ) نے اپنی تفسیر "روح المعانی" جلد 5 ص 31 میں اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ اگر اس حدیث کو "صحیح" قرار دیا جائے، تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ فرعون کافر دہریہ نہیں تھا، جیسا کہ بعض مفسرین کا قول ہے۔
مذکورہ بالا تفصیل سے درج ذیل تین باتیں معلوم ہوتی ہیں:
1) فرعون کے اس واقعے سے متعلق یہ حدیث موقوف (صحابی کا ارشاد) ہے، مرفوع حدیث (آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ارشاد) نہیں ہے، لہذا اس کی نسبت آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں ہے۔
2) اس حدیث کی "صحت" مشکوک ہے، محدثین نے اس کے متعلق حتمی طور صحیح ہونے کا فیصلہ نہیں فرمایا ہے۔
3) اگر اس حدیث کو کسی درجہ میں صحیح مان لیا جائے تب بھی یہ اکثر مفسرین کے موقف کے خلاف بات ہے، کیونکہ اکثر مفسرین رحمہم اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک فرعون کافرِ دہریہ تھا، جبکہ اس حدیث میں فرعون کے بارے میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا قائل تھا، صرف اس نے ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے کفر اختیار کر رکھا تھا، لیکن یہ موقف قرآن کریم کی صریح آیات کے خلاف ہے، قرآن کریم میں فرعون نے اپنے خدا ہونے کے دعووں کو صراحت کے ساتھ موجود ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
ترجمہ:
"فرعون نے پھر سب کو اکٹھا کیا اور آواز لگائی اور کہا کہ میں تمہارا اعلی درجے کا پروردگار ہوں"۔
(سورۃ النازعات: آیت نمبر: 23-24)
ترجمہ:
"اور فرعون بولا: اے دربار والو! میں تو اپنے سوا تمہارے کسی اور خدا سے واقف نہیں ہوں"۔
(سورۃ القصص: آیت نمبر: 38)
خلاصہ یہ ہے کہ اس واقعے کو عام مجمع میں بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے، کیونکہ عوام ان تحقیقات اور ان باریکیوں سے واقف نہیں ہوتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (القصص، الآية: 38)
وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَاأَيُّهَا الْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرِي ... الخ

و قوله تعالی: (النازعات، الآیة: 23، 24)
فَحَشَرَ فَنَادٰی o فَقَالَ اَنَا رَبُّکُمُ الۡاَعۡلٰی o

تفسير ابن أبي حاتم: (الأعراف، قوله تعالى ولقد أخذنا آل فرعون بالسنين، رقم الحديث: 8841، 1542/5، ط: مكتبة نزار مصطفى الباز)
حدثنا أبي، ثنا محمد بن عمران بن أبي ليلى، ثنا بشر، عن أبي روق، عن الضحاك، عن ابن عباس قال: لما أخذ الله آل فرعون بالسنين يبس كل شجر لهم وذهبت مواشيهم حتى يبس نيل مصر واجتمعوا إلى فرعون فقالوا له: إن كنت تزعم كما تزعم فأتينا في نيل مصر بماء قال: غدوة يصبحكم الماء، فلما خرجوا من عنده قال: أي شيء صنعت، أنا أقدر على أن أجري في نيل مصر ماء غدوة أصبح فيكذبوني، فلما كان في جوف الليل قام واغتسل ولبس مدرعة صوف، ثم خرج ماشيا حتى أتى نيل مصر، فقام في بطنه فقال: اللهم إنك تعلم أني أعلم أنك تقدر على أن تملأ نيل مصر ماء فاملأه ماء، فما علم إلا بجرير الماء يقبل، فخرج يحفز وأقبل النيل يزخ بالماء لما أراد الله بهم من الهلكة.

تفسير الألوسي: (31/5)
"وهذا إن صح يدل على أن الرجل لم يكن دهريا نافيا للصانع كما قال البعض".

زاد المسير في علم التفسير: (الأعراف، قوله تعالى ولقد أخذنا آل فرعون بالسنين، ص: 513، ط: دار ابن حزم)
"وروى الضحاك عن ابن عباس قال: يبس لهم كل شيء، وذهبت مواشيهم، حتى يبس نيل مصر، فاجتمعوا إلى فرعون فقالوا له: إن كنت ربا كما تزعم، فاملأ لنا نيل مصر، فقال غدوة يصبحكم الماء، فلما خرجوا من عنده، قال: أي شيء صنعت؟ أنا أقدر أن أجيء بالماء في نيل مصر؟ غدوة أصبح، فيكذبوني. فلما كان جوف الليل، اغتسل، ثم لبس مدرعة من صوف، ثم خرج حافيا حتى اتى بطن نيل مصر فقام في بطنه، فقال: اللهم إنك تعلم أني أعلم أنك تقدر أن تملأ نيل مصر ماء، فاملأه، فما علم إلا بخرير الماء لما أراد الله به من الهلكة. قلت: وهذا الحديث بعيد الصحة لأن الرجل كان دهريا لا يثبت إلها. ولو صح، كان إقراره بذلك كاقرار إبليس، وتبقى مخالفته عنادا".

تفسير الرازي: (النازعات، الآیة: 23، 24، 41/31)
"فحشر فجمع السحرة كقوله: فأرسل فرعون في المدائن حاشرين فنادى في المقام الذي اجتمعوا فيه معه، أو أمر مناديا فنادى في الناس بذلك، وقيل قام فيهم خطيبا فقال تلك الكلمة، وعن ابن عباس كلمته الأولى: ما علمت لكم من إله غيري [القصص: 38] والآخرة: أنا ربكم الأعلى. واعلم أنا بينا في سورة (طه) أنه لا يجوز أن يعتقد الإنسان في نفسه كونه خالقا للسموات والأرض والجبال والنبات والحيوان والإنسان، فإن العلم بفساد ذلك ضروري، فمن تشكك فيه كان مجنونا، ولو كان مجنونا لما جاز من الله بعثة الأنبياء والرسل إليه، بل الرجل كان دهريا منكرا للصانع والحشر والنشر، وكان يقول ليس لأحد عليكم أمر ولا نهي إلا لي، فأنا ربكم بمعنى مربيكم والمحسن إليكم، وليس للعالم إله حتى يكون له عليكم أمر ونهي، أو يبعث إليكم رسولا".

تفسير الرازي: (394/18)
"ثم قال تعالى: وما أمر فرعون برشيد أي بمرشد إلى خير، وقيل رشيد أي ذي رشد. واعلم أن بعد طريق فرعون من الرشد كان ظاهرا لأنه كان دهريا نافيا للصانع والمعاد وكان يقول: لا إله للعالم وإنما يجب على أهل كل بلد أن يشتغلوا بطاعة سلطانهم وعبوديته رعاية/ لمصلحة العالم وأنكر أن يكون الرشد في عبادة الله ومعرفته فلما كان هو نافيا لهذين الأمرين كان خاليا عن الرشد بالكلية".

تفسير البيضاوي: (الشعراء، الآية: 29، 30، 136/4)
"قال لئن اتخذت إلها غيري لأجعلنك من المسجونين (29) قال أولو جئتك بشيء مبين (30) قال لئن اتخذت إلها غيري لأجعلنك من المسجونين عدولا إلى التهديد عن المحاجة بعد الانقطاع وهكذا ديدن المعاند المحجوج، واستدل به على ادعائه الألوهية وإنكاره الصانع وأن تعجبه بقوله ألا تستمعون من نسبة الربوبية إلى غيره، ولعله ‌كان ‌دهريا اعتقد أن من ملك قطرا أو تولى أمره بقوة طالعه استحق العبادة من أهله"

تفسير الخازن: (237/2)
"والأولى أن يقال إن فرعون كان دهريا منكر الوجود الصانع فكان يقول مدبر هذا العالم السفلي هي الكواكب فاتخذ أصناما على صورة الكواكب وكان يعبدها ويأمر بعبادتها وكان يقول في نفسه إنه هو المطاع والمخدوم في الأرض فلهذا قال أنا ربكم الأعلى".

التفسير المظهري: (65/7)
"استدل فرعون بقدرته على التعذيب على ألوهيته وإنكاره للصانع وكان قوله الا تستمعون صادرا منه تعجبا من نسبة الربوبية الى غيره ولعله كان دهريا يعتقد ان من الملك قطرا من الأرض وتولى امره بقوة طالعه استحق العبادة من اهله".

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 417 Jul 12, 2023
firoun / firoon / firon k aadhi rat / raat ko Allah tala se / sey qehet / qahet sali / saali khatam hone / honey k liye dua karne / karney ka waqa / waqea, us ki tehqiq / tehqeeq

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.