سوال:
ایک شخص نے زنا کیا جس سے حمل ٹھہر گیا، اب اس شخص کو خیال آیا کہ میں نے غلط کام کیا ہے، اس نے وہ حمل ختم کروانا ہے تو وہ اپنے ایک دوست سے کہتا ہے کہ میری مدد کر اور یہ حمل ختم کروا دے، وہ اس کو کہتا ہے کہ میں گناہ کے کام میں کیوں شریک ہوں؟ تو وہ اس کو کہتا ہے کہ میں پکی توبہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد میں کبھی ایسا کام نہیں کروں گا، کیا اس کی توبہ کے بعد اس کا ساتھ دینے سے کوئی گناہ تو نہیں ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ ایک انسان کی جان شریعت کی نظر میں نہایت قابل احترام ہے، اسے ناحق قتل کرنا سخت گناہ ہے، خواہ وہ جنین کی صورت میں کسی عورت کے پیٹ میں ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ بدکاری کے ذریعے ہونے والے حمل میں اگر جان پڑ چکی ہو (یعنی حمل کو چار ماہ گزر چکے ہوں) تو اس کا اسقاط کروانا جائز نہیں ہے اور ڈاکٹر یا کسی بھی شخص کا اس گناہ میں معاون بننا جائز نہیں ہے۔
ہاں! اگر چار ماہ سے کم مدت کا حمل ہو (یعنی اس میں جان نہ پڑی ہو) اور اس بد کاری والی عورت کو قوی اندیشہ ہو کہ اس کے ناجائز حمل کے ظاہر ہونے پر اسے غیرت کے نام پر قتل کر دیا جائے گا یا خاندان کی عزت کا مسئلہ ہوگا، یا گھر میں جھگڑا و فساد ہوگا تو ایسی صورتحال میں چار ماہ سے کم مدت تک کے حمل کے اسقاط کی گنجائش ہے، نیز اس کام میں کسی دوسرے شخص مثلاً: ڈاکٹر وغیرہ کے لیے معاون بننے کی بھی گنجائش ہے۔تاہم دونوں مرد و عورت کو اپنے اس گھناؤنے جرم پر اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (كتاب الكراهية، الباب الثامن عشر في التداوى و المعالجات، 356/5، ط: دار الفكر)
"العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر والظفر ونحوهما لايجوز وإن كان غير مستبين الخلق يجوز وأما في زماننا يجوز على كل حال وعليه الفتوى، كذا في جواهر الأخلاطي".
الفتاوى الهندية: (كتاب الكراهية، الباب الثامن عشر في التداوي و المعالجات، 356/5، ط: دار الفكر)
"يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفة أو مضغۃ أو علقة لم يخلق له عضو وخلقه لا يستبين إلا بعد مائة وعشرين يوما أربعون نطفة وأربعون علقة وأربعون مضغة كذا في خزانة المفتين.وهكذا في فتاوى قاضي خان".
رد المحتار: (كتاب النكاح، باب الاستبراء وغيره، 347/6، ط: دار الفكر)
"وفي الذخيرة: لو أرادت إلقاء الماء بعد وصوله إلى الرحم قالوا إن مضت مدة ينفخ فيه الروح لا يباح لها وقبله اختلف المشايخ فيه والنفخ مقدر بمائة وعشرين يوما بالحديث".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی