سوال:
ہم ویب سائٹس بنانے کا کام یعنی ویب ڈیزائننگ کرتے ہیں اور اگر کسی کو یہ کام سیکھنا ہو تو اسے بغیر معاوضے کے اس شرط پر سکھاتے ہیں کہ وہ کام سیکھ کر ہمارے پاس ہی کام کرے گا، جس سے اس کا بھی روزگار لگے گا اور ہمیں بھی کام کرنے والے اچھے لوگ میسر آسکیں گے۔ کام سیکھنے کے دوران ہم ان سے بطور فیس کچھ نہیں لیتے (جبکہ اگر وہ یہی کورس کسی اور ادارے سے سیکھیں تو اسے ماہانہ کم از کم دس ہزار فیس ادا کرنی ہوتی ہے) بلکہ ہم انہیں آنے جانے کا ماہانہ پانچ ہزار روپے خرچہ دیتے ہیں اور یہ بات انہیں پہلے ہی بتائی جا چکی ہوتی ہے کہ ہم آپ کو جو بغیر فیس کے سکھا رہے ہیں اور جو پیسے دے رہے ہیں، یہ آپ پر بطور انویسٹمنٹ کے ہیں، تاکہ جب آپ کام سیکھ لیں تو ہمارے پاس کام کریں تاکہ آپ کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی فائدہ ہو۔
اسی سلسلے میں ہمارے پاس ایک لڑکا کام سیکھنے آیا اور چھ ماہ تک ہم سے وہ کام سیکھتا رہا اور اس دوران ہم ہر ماہ اسے خرچہ بھی دیتے رہے اور یہ بات اسے ہم بتا چکے تھے کہ تمہیں بغیر کسی معاوضے کے سکھانا اور یہ پانچ ہزار ماہانہ دینا، یہ آپ پر ہماری انویسٹمنٹ ہے، کوئی معاوضہ نہیں ہے، کیونکہ آپ یہاں ملازمت نہیں کررہے، کام سیکھ رہے ہیں اور بعد ازاں آپ ہمارے پاس ہی کام کریں گے۔ یہ تمام باتیں انہیں بتائی جا چکی تھی، اب جبکہ چھ مہینے ہو گئے تو انہوں نے آفس یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ یہ کام کرنے سے میرے والد مجھے منع کررہے ہیں، کیونکہ ویب سائٹ میں تصاویر ہوتی ہیں، حالانکہ یہ بات انہیں چھ ماہ قبل بھی معلوم تھی۔
براہ کرم اس ضمن میں درج ذیل سوالات کےعلیحدہ علیحدہ جوابات عنایت فرمائیں:
1) کیا ہم اس لڑکے سے چھ ماہ تک مشروط طور پر دیے گئے تیس ہزار روپے کا مطالبہ کرسکتے ہیں اور کیا اس لڑکے پر ان پیسوں کا ہمیں واپس کرنا لازم ہوگا ؟
2) کیا ہماری طرف سے کام سکھانے والا ملازم یا ہم اس لڑکے سے اس اجرت مثل (جو دیگر اداے ماہانہ دس ہزار لیتے ہیں) کا مطالبہ کرسکتے ہیں اور کیا اس پر اس اجرت مثل کا ادا کرنا واجب ہوگا؟
جواب: 1,2) پوچھی گئی صورت میں چونکہ آپ نے کام سکھاتے وقت شروع میں کوئی عوض/فیس طے نہیں تھی، بلکہ بغیر معاوضے کے کام سکھانے کی بات کی گئی تھی جو کہ تبرع کی ایک صورت ہے، اس لئے اب اگر وہ کام سیکھ کر آپ کے پاس کام نہیں کرتا تو آپ اس سے کام سکھانے کا کوئی معاوضہ/اجرت مثل کا شرعا مطالبہ نہیں کرسکتے، تاہم کام سیکھنے کے بعد اس کا آپ کے پاس کام نہ کرنا وعدہ کی مخالفت ہے، جوکہ عام حالات میں درست نہیں ہے۔
البتہ آئندہ کیلئے اپنی انویسٹمنٹ کو ضائع ہونے سے بچانے کی خاطر یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ آپ کام سکھاتے وقت یہ شرط رکھیں کہ کام کی اتنی فیس ہے اور سیکھنے کے بعد ایک مخصوص مدت (تین ماہ، چھ ماہ یا ایک سال وغیرہ) تک کام کرنے والے کو یہ فیس معاف ہوگی، اور اس سے پہلے چھوڑ کر جانے کی صورت میں فیس لی جائے گی، ایسی صورت میں اگر کوئی کام نہیں کرتا تو آپ اس سے طے شدہ فیس کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذي: (28/3، ط: دار الغرب الاسلامی)
المسلمون على شروطهم، إلا شرطا حرم حلالا، أو أحل حراما.
تنقیح الفتاوی الحامدیة: (226/2، ط: دار المعرفة)
"المتبرع لا يرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره."
الموسوعة الفقهية الكويتية: (65/10، ط: وزارۃ الاوقاف و الشئوون الاسلامیة، الکویت)
فإن معنى التبرع عند الفقهاء كما يؤخذ من تعريفهم لهذه الأنواع، لا يخرج عن كون التبرع بذل المكلف مالا أو منفعة لغيره في الحال أو المآل بلا عوض بقصد البر والمعروف غالبا.
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی