سوال:
لوگوں سے سنا ہے کہ جو شخص دشمنی میں مبتلا ہو جائے، وہ اللہ تعالیٰ کے نا خوش بندوں میں سے ہوتا ہے۔ اس بات کی کیا حقیقت ہے؟
جواب: واضح رہے کہ بلا وجہ شرعی کسی مسلمان سے دشمنی کرنا گناہ ہے اور ایسے انسان کو اللہ تعالٰی پسند نہیں فرماتے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ”اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل نفرت وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ جھگڑالو ہو“(بخاری ،حدیث نمبر:7188)
ایک اور روایت میں آتا ہے:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا:پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ہر اس بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا، اس بندے کےسوا جس کی اپنے بھائی کے ساتھ عداوت و دشمنی ہو، چنانچہ کہا جاتا ہے: ان دونون کو مہلت دو حتی کہ یہ صلح کر لیں، ان دونوں کو مہلت دو حتی کہ یہ صلح کر لیں۔ ان دونوں کو مہلت دو حتی کہ یہ صلح کر لیں (اور صلح کے بعد ان کی بھی بخشش کر دی جائے۔) (مسلم، حدیث نمبر:2565)
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی مسلمان سے بلا وجہ دشمنی کرنا جائز نہیں ہےاور ایسا کرنا گناہ ہے اور گناہ کرنے والے سے اللہ تعالیٰ ناخوش ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخاري: (رقم الحديث: 7188، 73/9، ط: دار طوق النجاة)
عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أبغض الرجال إلى الله الألد الخصم».
صحيح مسلم: (رقم الحديث: 2565، 1987/4، ط: دار إحياء التراث العربي)
عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " تفتح أبواب الجنة يوم الإثنين، ويوم الخميس، فيغفر لكل عبد لا يشرك بالله شيئا، إلا رجلا كانت بينه وبين أخيه شحناء، فيقال: أنظروا هذين حتى يصطلحا، أنظروا هذين حتى يصطلحا، أنظروا هذين حتى يصطلحا «.
الإستذكار لابن عبدالبر: (294/8، ط: دار الكتب العلمية)
وفيه تعظيم ذنب المهاجرة والعداوة والشحناء لأهل الإيمان وهم الذين يأمنهم الناس على دمائهم وأموالهم وأعراضهم المصدقون بوعد الله ووعيده المجتنبون لكبائر الإثم والفواحش والعبد المسلم من وصفنا حاله ومن سلم المسلمون من لسانه ويده فهؤلاء لا يحل لأحد أن يهجرهم ولا أن يبغضهم بل محبتهم دين وموالاتهم زيادة في الإيمان واليقين وفي هذا الحديث دليل على أن الذنوب بين العباد إذا تساقطوها وغفرها بعضهم لبعض أو خرج بعضهم لبعض عما لزمه منها سقطت المطالبة من الله - عز وجل - بدليل قوله صلى الله عليه وسلم في هذا الحديث حتى يصطلحا فإذا اصطلحا غفر لهما.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی