سوال:
اگر شوہر بیوی کو مسلسل طوائف کہے تو کیا عورت شوہر سے خلع لے سکتی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر شوہر بیوی کو برا بھلا کہے، یا ایسی گالیاں دے جو عورت کے لیے انتہائی تحقیر اور اذیت کا باعث ہو تو اس صورت میں پہلے خاندان کے بڑوں کے ذریعے شوہر کو سمجھانے کی کوشش کی جائے، لیکن اگر اس کے باوجود بھی شوہر گالم گلوچ سے باز نہیں آتا تو اگر عورت صبر و شکر سے اس شوہر کے ساتھ گزارا کر سکتی ہے تو یہ اس کے لیے باعث ثواب و درجات ہوگا اور آخرت میں اس کے تکلیفوں پر صبر اور شکر کرنے پر عورت کے لیے بڑا مقام ہوگا، اور اگر اس کا شوہر کے ساتھ کسی طرح بھی گزارا ممکن نہیں تو عورت کے لیے شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنا درست ہے۔ نیز یہ بات واضح رہے کہ خلع میں شوہر کی رضامندی شرعاً ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابي داؤد: (544/3، ط: دار الرسالة العالمية)
عن حبيبة بنت سهل الأنصارية: أنها كانت تحت ثابت بن قيس بن الشماس، وأن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - خرج إلى الصبح، فوجد حبيبة بنت سهل عند بابه في الغلس، فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "من هذه؟ " فقالت: أنا حبيبة بنت سهل، قال: "ما شأنك؟ " قالت: لا أنا ولا ثابت بن قيس - لزوجها - فلما جاء ثابت بن قيس قال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "هذه حبيبة بنت سهل" وذكرت ما شاء الله أن تذكر، وقالت حبيبة: يا رسول الله، كل ما أعطاني عندي، فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لثابت بن قيس: "خذ منها" فأخذ منها، وجلست في أهلها.
رد المحتار: (441/3، ط: دار الفکر)
وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول.
الفتاوی الهندية:(488/1، ط: دار الفكر)
إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی