سوال:
مفتی صاحب! اچھی اور بری تقدیر کا کیا مطلب ہے؟
جواب: واضح رہے کہ شريعت كى اصطلاح ميں "تقدیر" نام ہے قضاء وقدر کا، یعنى کائنات کے بارے میں اللہ تعالى نے ازل سے جو فیصلہ فرمایا ہے، اس کا نام "تقدیر" ہے۔
مؤمن ہونے کے لیے تقدیر پر ایمان لانا ضروری ہے اور تقدیر کے اچھے اور برے ہونے پر بھی ایمان لانا ضروری ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی تمام طے کردہ باتوں پر خواہ وہ اچھی ہوں یا بری، میٹھی ہوں یا کڑوی، ایمان لانا ضروری ہے۔
نیز تقدیر الہی کا اچھا یا برا اور میٹھا یا کڑوا ہونا انسانوں کے اعتبار سے ہے، ورنہ اللہ کی منصوبہ بندی کے اعتبار سے ہر چیز اچھی ہے، اللہ تعالیٰ کی طے کردہ باتیں انسانوں کے لیے مفید ہوں یا مضر، میٹھی ہوں یا کڑوی، یعنی انسانوں کو اچھی لگیں یا بری، سب پر ایمان لانا ضروری ہے، جیسے گھی کے بارے میں تجویز الہی یہ ہے کہ وہ صحت بخش ہے اور زہر کے بارے میں یہ طے ہے کہ وہ مہلک ہے، اسی طرح ایمان اور اعمال صالحہ کے بارے میں طے ہے کہ وہ جنت میں لے جانے والے اعمال ہیں اور کفر و معاصی جہنم میں لے جانے والے ہیں، ٹھیک اسی طرح بچے کا زندہ رہنا انسان کو پسند ہے اور مر جانا ناپسند ہے، حالانکہ یہ سب باتیں اللہ تعالی کی طرف سے طے شدہ ہیں اور ان پر ایمان لانا اور عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔
مزید یہ کہ کائناتی چیزوں کی حد تک ہر شخص تقدیر الہی کا قائل ہے اور اس کا پابند بھی ہے، لوگ بڑی قیمت دے گھی خریدتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں اور زہر کے پاس کوئی نہیں پھٹکتا ہے اور کسی کو اس معاملے میں تقدیر الہی پر اعتراض نہیں ہوتا ہے، مگر جب ایمان و اعمال صالحہ اور کفر و معاصی کا معاملہ آتا ہے تو انسان طرح طرح کی باتیں نکالتا ہے اور جب اس کا بچہ فوت ہو جاتا ہے تو جزع وفزع کی حد کر دیتا ہے، یہ تقدیر پر ایمان نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔(مستفاد از رحمۃ اللہ الواسعۃ،: جلد 1 ص 661،ط: زمزم پبلشرز)
خلاصہ یہ ہے کہ لوگ اچھی بری تقدیر کا مطلب نفس الامر کی اعتبار سے اچھا برا ہونا سمجھتے ہیں، حالانکہ اس اعتبار سے تو ہر چیز خیر محض ہے، کارخانہ خداوندی میں کوئی برا نہیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ جس تقدیر الہی کا انسان کے ساتھ تعلق ہے، اس کا انسان کے لیے مفید اور غیر مفید ہونا ہے، چنانچہ اس کو کائناتی چیزوں کی حد تک ہر شخص تسلیم کرتا ہے اور مفید باتیں حاصل کرنے کی اور مضر باتوں سے بچنے کی سعی کرتا ہے، بس اعمالِ صالحہ میں بھی یہ بات مان لینی چاہیے اور یہی اچھی بری تقدیر پر ایمان لانے کا مطلب ہے۔
(مستفاد ازتحفۃ الألمعی شرح سنن الترمذی: جلد 5 ص 479، ط: زمزم پبلشرز، باختصار واضافہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح مسلم: (کتاب الإيمان، باب بيان الإيمان و الإسلام و الإحسان و وجوب الإيمان بإثبات قدر الله سبحانه وتعالى، رقم الحدیث: 8، 36/1، ط: دار إحياء التراث العربي)
حدثني أبو خيثمة زهير بن حرب. حدثنا وكيع، عن كهمس، عن عبد الله بن بريدة، عن يحيى بن يعمر. ح وحدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري. وهذا حديثه: حدثنا أبي. حدثنا كهمس، عن ابن بريدة، عن يحيى بن يعمر؛ قال: كان أول من قال في القدر بالبصرة معبد الجهني. فانطلقت أنا وحميد بن عبد الرحمن الحميري حاجين أو معتمرين فقلنا: لو لقينا أحد من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فسألناه عما يقول هؤلاء في القدر. فوفق لنا عبد الله بن عمر بن الخطاب داخلا المسجد. فاكتنفته أنا وصاحبي. أحدنا عن يمينه والآخر عن شماله. فظننت أن صاحبي سيكل الكلام إلي. فقلت: أبا عبد الرحمن! إنه قد ظهر قبلنا ناس يقرؤون القرآن ويتقفرون العلم. وذكر من شأنهم وأنهم يزعمون أن لا قدر. وأن الأمر أنف. قال: فإذا لقيت أولئك فأخبرهم أني بريء منهم، وأنهم برآء مني. والذي يحلف به عبد الله بن عمر! لو أن لأحدهم مثل أحد ذهبا فأنفقه، ما قبل الله منه حتى يؤمن بالقدر. ثم قال: حدثني أبي عمر بن الخطاب، قال: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم، إذ طلع علينا رجل شديد بياض الثياب. شديد سواد الشعر. لا يرى عليه أثر السفر. ولا يعرفه منا أحد. حتى جلس إلى النبي صلى الله عليه وسلم. فأسند ركبتيه إلى ركبتيه. ووضع كفيه على فخذيه. وقال: يا محمد! أخبرني عن الإسلام. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الإسلام أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله صلى الله عليه وسلم. وتقيم الصلاة. وتؤتي الزكاة. وتصوم رمضان. وتحج البيت، إن استطعت إليه سبيلا" قال: صدقت. قال فعجبنا له. يسأله ويصدقه. قال: فأخبرني عن الإيمان. قال: "أن تؤمن بالله، وملائكته، وكتبه، ورسله، واليوم الآخر. وتؤمن بالقدر خيره وشره" قال: صدقت....الخ".
سنن ابن ماجه: (افتتاح الكتاب في الإيمان، باب في القدر، رقم الحدیث: 87، 109/1، ط: دار الجیل)
حدثنا علي بن محمد قال: حدثنا يحيى بن عيسى الجرار، عن عبد الأعلى بن أبي المساور، عن الشعبي، قال: لما قدم عدي بن حاتم الكوفة، أتيناه في نفر من فقهاء أهل الكوفة، فقلنا له: حدثنا ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: أتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقال: "يا عدي بن حاتم، أسلم تسلم"، قلت: وما الإسلام؟ فقال: "تشهد أن لا إله إلا الله، وأني رسول الله، وتؤمن بالأقدار كلها، خيرها وشرها، حلوها ومرها".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی