سوال:
کیا قرآن مجید کو باوضو ہاتھ لگانے پر کوئی حوالہ ہے، کیونکہ سورہ واقعہ میں تو صرف پاک ہونے کی شرط ہے؟ کیا بغیر وضو کے ہاتھ قرآن مجید کو ہاتھ لگانے سے گناہ ہوگا، جبکہ وہ شخص پاک ہو؟
جواب: قرآن مجید کو وضو کے بغیر چھونا جائز نہیں ہے، البتہ فقہاء نے اس حالت میں کسی پاک کپڑے وغیرہ کے ذریعے چھونے کی اجازت دی ہے۔سورۃ الواقعة کی آیت "لَايَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ" کی تفسیر میں مفسرین نے یہ قول بھی اختیار کیا ہے۔
اسی طرح حضور اکرم ﷺکی حدیث ہے جس میں آپﷺنے فرمایا: "قرآن کو نہ چھوئے مگر طاہر شخص" اس حدیث میں طاہر سے مراد باوضو ہونا ہے۔ حدیث کی سب سے پہلی کتاب مؤطا میں امام مالک رحمہ اللہ نے اس حدیث کا عنوان "باب الامر بالوضوء لمن مس القرآن" رکھا ہے، جس کا ترجمہ ہے " قرآن کو چھونے والے کو وضو کا حکم"، اسی طرح امام ترمذی رحمہ اللہ نے ایک دوسری حدیث (جس میں بغیر وضو قرآن مجید پڑھنے کا ذکر ہے) کے ضمن میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ بغیر وضو قرآن مجید کو چھونا جائز نہیں ہے، یہی جمہور فقہاء و محدثین کا قول ہے۔
لہذا قرآن مجید کو چھونے کے لیے صرف جنابت سے پاک ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قرآن پاک کو چھونے کے لیے باوضو ہونا بھی ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الواقعة، الآية: 79)
لَایَمَسُّهٗ اِلَّا المُطَهَّرُونَo
روح المعانی: (219/27، ط: مکتبة رشیدیة)
وفي الاحكام للجلال السيوطي استدل الشافعي بالايه على منع المحدث من مس المصحف وهو ظاهر في اختيار ذلك....... فقد اخرج الامام مالك وعبد الرزاق وابن ابي داوود وابن المنذر عن عبد الله بن ابي بكر عن ابيه قال في كتاب النبي صلى الله عليه وسلم لعمرو بن حزم: "ولا تمس القران الا على طهور" واخرج الطبراني وابن مردويه عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا يمس القران الا طاهر" الى غير ذلك.
موطأ الإمام مالك: (كتاب القرآن، باب الأمر بالوضوء لمن مس القرآن، رقم الحدیث: 470)
عن عبد الله بن أبي بكر بن حزم، أن في الكتاب الذي كتبه رسول الله صلى الله عليه وسلم لعمرو بن حزم: "أن لا يمس القرآن إلا طاهر".
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 146، ط: دار الغرب الاسلامی)
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلِمَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقْرِئُنَا الْقُرْآنَ عَلَى كُلِّ حَالٍ مَا لَمْ يَكُنْ جُنُبًا . قال أبو عيسى: حَدِيثُ عَلِيٍّ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَبِهِ قَالَ: غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، قَالُوا: يَقْرَأُ الرَّجُلُ الْقُرْآنَ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ وَلَا يَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ إِلَّا وَهُوَ طَاهِرٌ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی