عنوان: پراپرٹی ڈیلر شپ کی فروخت کا حکم(10861-No)

سوال: ایک سوسائٹی کی طرف سے مختلف قدر کی ڈیلر شپ بیچی گئی ہے، اس طور پر کہ جب بھی یہ سوسائٹی لانچ ہوگی تو پلاٹوں کی یا فائلوں کی خرید و فروخت انہی ڈیلرشپ کے ذریعے ہوگی۔ فی الحال اس سوسائٹی کی زمین کا کوئی تعین نہیں ہے، جن لوگوں نے یہ ڈیلر شپ لی ہے اب وہ آگے اس پر اپنا منافع رکھ کر یہ ڈیلر شپ بیچ رہے ہیں۔ کیا ان کے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب: واضح رہے کہ پراپرٹی ڈیلر شپ ایک حق ہے، اور حقوق کی بیع کے لیے فقہاء نے جہاں دیگر شرائط کو لازمی قرار دیا ہے، وہاں اس بات کو بھی لازمی قرار دیا ہے کہ وہ حق کسی ثابت شدہ عین (یعنی متعین چیز) سے متعلق ہو، لہذا جس پراپرٹی کی زمین متعین نہ ہوئی ہو، اس کی ڈیلر شپ کا حق کسی عین یعنی کسی متعین زمین سے متعلق نہیں ہوتا ہے، جبکہ سوال میں پوچھی گئی صورت میں تو زمین ہی مجہول ہے، لہذا اس صورت میں غرر یعنی غیر یقینی کیفیت اور دھوکے کا امکان ہے۔
اس لیے جب تک کسی سوسائٹی کی زمین معلوم اور متعین نہ ہو اور نہ ہی اس کا نقشہ باقاعدہ طور پر منظور ہو، اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ اتنے کلومیٹر کی مربع زمین اس سوسائٹی کی ہے اور اس میں اتنے پلاٹوں کی گنجائش ہے، اور جتنے پلاٹ ہیں اتنی ہی فائلیں ہیں، جب تک یہ تمام تفصیلات کسی سوسائٹی کی جانب سے نہیں آتیں اور قانونی طور پر اس کو وثوق نہیں ملتا ہے تو ایسی سوسائٹی کی ڈیلر شپ کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

بحوث في قضايا فقهية معاصرة: (ص: 99، 100، ط: دار القلم- دمشق)

خلاصة حكم هذا النوع من الحقوق: ومن المناسب قبل أن نتقدم أن نحرر ما تحصل مما سبق من النصوص الفقهية، وهي أمور:
١- إن تعريف البيع أمر اختلف فه الفقهاء، فالشافعية والحنابلة لا يشترطون في المبيع أن يكون عينا، بل يجوزون بيع المنافع المؤبدة. وكذلك يظهر من بعض فروع المالكية.
٢- إن الحنفية وإن اشترطوا في البيع أن يكون المبيع عينا، ولكنهم أجازوا بيع حق المرور، وعللوا ذلك بأنه حق يتعلق بعين، فأخذ حكمه في جواز البيع.
٣- ويظهر من ذلك أن الحقوق المتعلقة بالأعيان حكمها عند الحنفية حكم الأعيان، فيجوز بيعها ما لم يكن هناك مانع آخر من البيع، مثل الغرر أو الجهالة.
٤- إن الحقوق التي لا تتعلق بالأعيان، مثل حق التعلي، لا يجوز بيعها عند الحنفية، ولكن يجوز الاعتياض عنها بطريق الصلح على ما ذكره بعضهم. وفي ضوء هذه النقاط الأربعة نستطيع أن نقول: إن بيع هذا النوع من الحقوق العرفية، وهو حق الانتفاع بالأعيان جائز عند الأئمة الثلاثة الحجازيين، وإنما منه الحنفية، فقالوا: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة، ولكن هذا الحكم عندهم ليس بهذا العموم الذي يتوهم من لفظه، بل استثنى منه الفقهاء بعض الحقوق التي تتعلق بالأعيان. وإن للعرف مجالا في إدراج بعض الأشياء في الأموال، فإن المالية كما يقول ابن عابدين رحمه الله، تثبت بتمول الناس. فلو كانت بعض الحقوق تعتبر في العرف أموالا متقومة، وتعامل بها الناس تعامل الأموال، ينبغي أن يجوز بيعها عندهم أيضا بشروط آتية:
١- أن يكون الحق ثابتا في الحال، لا متوقعا في المستقبل.
٢- أن يكون الحق ثابتا لصاحبه أصالة، لا لدفع الضرر عنه فقط.
٣- أن يكون الحق قابلا للانتقال من واحد إلى آخر.
٤- أن يكون الحق منضبطا بالضبط، ولا يستلزم غررا أو جهالة.
٥- أن يكون في عرف التجار يسلك به مسلك الأعيان والأموال في تداولها.

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 423 Aug 09, 2023
property dealer ship ki farokht / sale ka hokom /hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.