عنوان: "جو حقائق مجھے معلوم ہیں، اگر تم جان لو تو تم زیادہ روؤ اور تھوڑا ہنسو" اس حدیث کی تحقیق و تشریح" (10868-No)

سوال: مفتی صاحب! صحابی رسول ﷺ کی مندرجہ ذیل بات کی تحقیق اور تشریح فرما دیجئے: "‏اگر تم دوزخ کی حقیقت جان لو تو اتنا چیخو کہ تمہاری آواز بند ہو جائے اور اس قدر نماز پڑھو کہ تمہاری کمر ٹوٹ جائے"۔ (سیدنا عمرو بن العاص رضی اللّٰہ عنہ، کتاب الزھد، لابن المبارک، ص: 1007)

جواب: سوال میں مذکور حدیث "مرفوعا" اور "موقوفا" دونوں طرح سے ثابت ہے، البتہ اس حدیث کا مرفوع طریق "ضعیف" ہے، لیکن اس حدیث کے موقوف طرق "صحیح" ہیں، چونکہ اس حدیث کا مضمون دوسرى صحیح احادیث سے بھى ثابت ہے، ان سے بھى اس حدیث کو تقویت ملتى ہے، جیسا کہ تشریح میں بیان کیا جائے گا، لہذا اس حدیث کو بیان کیا جا سکتا ہے، ذیل میں اس حدیث کى تخریج، حدیث کى اسنادى حیثیت اور اس حدیث کى تشریح نقل کى جاتى ہے:
ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"جو باتیں میں جانتا ہوں، اگر تم جان لو تو تم زیادہ روؤ اور تھوڑا ہنسو اور اگر تم میں سے کسى کو(وہ سارے حقائق واحوال) معلوم ہو جائے تو وہ اتنا لمبا سجدہ کرے کہ اس کى کمر ہى ٹوٹ جائے اور (روتے ہوئے) اتنا چیخے اور چلائے کہ اس کى آواز ہى بند ہو جائے، لہذا تم اللہ تعالى کے سامنے رویا کرو، اگر رونا نہ آئے تو رونے جیسے کیفیت بنا لو"۔ (الزهد لهناد بن السري: حديث نمبر:469)
تخریج الحدیث:
1) یہ حدیث امام ہناد بن السری رحمہ اللہ(م 243 ھ) نے اپنی "کتاب الزھد" جلد 1 ص 270 رقم الحدیث (469)، ط: دار الخلفاء للکتاب الإسلامی- بیروت) میں "حجاج بن ارطاۃرحمہ اللہ" کے طریق سے "مرفوعا" نقل فرمائى ہے۔
2) امام عبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ (م 181ھ) نے اپنى کتاب "الزھد والرقاق" ص 356 رقم الحدیث (1007)، ط: دار الکتب العلمیۃ، میں "عثمان بن الأسود رحمہ اللہ "کے طریق سے "موقوفا" نقل فرمائى ہے۔
3)حافظ ابو نعیم الأصبہانی رحمہ اللہ (م 430 ھ) نے اپنى کتاب "حلیۃالأولیاء" جلد 1 ص 289 ، ط: دار الفکر) میں "عبد الجبار بن الورد رحمہ اللہ" کے طریق سے "موقوفا" نقل فرمائى ہے۔
4) امام حاکم رحمہ اللہ (م 405) نے اپنى کتاب "المستدرک" جلد 4 ص 622 رقم الحدیث (8723)، ط: دار الکتب العلمیۃ، میں "عثمان بن الأسود رحمہ اللہ" کے طریق سے "موقوفا" نقل فرمائی ہے۔
حدیث کى اسنادى حیثیت:
یہ حدیث "مرفوع" اور "موقوف" دونوں طرح سے مروى ہے، البتہ اس حدیث کے "موقوف" طرق صحیح ہیں، جبکہ اس حدیث کا مرفوع طریق "ضعیف" ہے، کیونکہ اس میں ایک راوی ہیں: "حجاج بن ارطاۃ رحمہ اللّٰہ"، محدثین نے تدلیس کى وجہ سے ان کو ضعیف قرار دیا ہے، حافظ ابن عدى رحمہ اللہ (م 365 ھ) نے اپنى کتاب "الكامل" 3/ 288 (4350) میں حجاج بن أرطأة کے تذکرے میں فرمایا ہے: لوگوں (محدثین) نے ان کى امام زہرى اور دیگر محدثین سے روایت میں "تدلیس" کى بنا پر جرح کى ہے، نیز وہ بعض روایات میں غلطى بھى کرتے ہیں، لیکن وہ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتے ہیں اور یہ ان راویوں میں سے ہیں، جن کى روایات کو نقل کیا جاتا ہے۔
تشریح:
ہنسى اور دل لگى کرنا آخرت کو بھولنے کى علامت ہے، اگر انسان آخرت کے احوال سے واقف ہوجائے تو اس کى ہنسى ختم ہو جائے، چنانچہ صحیح بخارى کى ایک حدیث میں یہى مضمون حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروى ہے، انہوں نے فرمایا: ابو القاسم (آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى کنیت ہے) نے ارشاد فرمایا: "قسم ہے اس ذات کى جس کے قبضہ میں میرى جان ہے، جو (حقائق) مجھے معلوم ہیں،اگر تمہیں معلوم ہو جائیں تو تم زیادہ روؤ اور تھوڑا ہنسو"۔ (صحیح بخارى: حدیث نمبر: 6485)
یعنى اگر اللہ کى شان بے نیازى، اس کے قہر و جلال اور آخرت کے ہولناک مناظر جو اللہ تعالى نے نبى ﷺ پر منکشف کیے ہیں، اگر وہ سارى باتیں لوگوں پر منکشف ہو جائیں تو لوگوں کا چین ختم ہو جائے وہ بہت کم ہنسیں اور زیادہ تر روتے رہیں، کیونکہ اللہ تعالى نے انسانوں کو خلافتِ ارضى سے سرفراز فرمایا ہے، پس وہ اپنے فریضہ سے اسى وقت سبکدوش ہو سکتے ہیں جب وہ اس دنیا میں چین سے رہیں، اس لیے عالمِ آخرت کى چیزیں عام انسانوں سے پردہ غیب میں رکھى گئى ہیں، جیسے قبر کا اور دوزخ کا عذاب اور قیامت کے لرزہ خیز مناظر، اگر یہ چیزیں انسانوں پر منکشف کر دى جائیں تو وہ اس دنیا میں کوئى بھى کام نہ کر سکیں، بلکہ زیادہ دنوں تک پنپ بھى نہ سکیں، مگر نبى ﷺ پر تبلیغی مقاصد کے لیے یہ چیزیں منکشف کى گئیں، بلکہ معراج میں ایک درجہ میں ان حقائق کا مشاہدہ بھى کرایا گیا، تاکہ وہ امت کو ان حقائق سے آگاہ کریں، اب امت کا فرض ہے کہ وہ پیغمبر کے اعتماد و اعتبار پر ان سب باتوں کو مانیں اور ان کو اپنى دنیوى زندگى کى بنیاد بنائیں، یعنى آنے والى آخرت کى زندگى کو پیشِ نظر رکھ کر دنیا کو سنواریں، اللہ تعالى بندوں کى عبادت کے محتاج نہیں، اللہ کى عبادت کے لیے فرشتے بہت ہیں، فرشتوں کى کثرت سے آسمان چرچرا رہا ہے اور چار انگشت جگہ بھى ایسى نہیں جہاں کوئى فرشتہ سر بسجود نہ ہو، پھر ان کو مٹھى بھر انسانوں کى بندگى کى کیا ضرورت ہے؟ بلکہ بندوں کو خود اپنى بھلائى کے لیے بندگى کى ضرورت ہے۔
(ماخوذ از تحفۃ الألمعی شرح سنن ترمذى بتصرف یسیر: جلد 6 ص 102، طبع: زمزم پبلشرز)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الزهد لهناد بن السري: (باب البكاء، رقم الحديث: 469، 270/1، ط: دار الخلفاء للكتاب الإسلامي)
حدثنا أبو معاوية عن حجاج عن ابن أبي مليكة عن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله لو تعلمون ما أعلم لبكيتم كثيرا ولضحكتم قليلا ولو علمتم ما أعلم لسجد أحدكم حتى ينقطع صلبه ولصرخ حتى ينقطع صوته ابكوا إلى الله فإن لم تستطيعوا أن تبكوا فتباكوا.
قال ابن عدي في «الكامل» 3/ 288 (4350) في ترجمة حجاج بن أرطأة: والحجاج بن أرطاة إنما عاب الناسُ عليه تدليسَه عن الزهريِّ وعن غيرِه، ورُبما أخطأ في بعض الروايات، فأما أن يتعمد الكذب فلا، وهو ممن يكتب حديثه.

الزهد لابن المبارك: (باب فضل ذكر الله، رقم الحديث: 1007، ص: 356، ط: دار الکتب العلمیة)

المستدرك للحاكم: (كتاب الأهوال، رقم الحديث: 8723، 622/4، ط: دار الكتب العلمية)
قال الحاكم: هذا إسناد صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه.
وقال الذهبي في التلخيص: على شرط البخاري ومسلم.

حلية الأولياء لأبي نعيم: (289/1، ط: دار الفكر)
موقوفًا

صحيح البخاري: (كتاب الرقاق، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم لو تعلمون ما أعلم لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا، رقم الحديث: 6485، 102/8، ط: دار طوق النجاة)
حدثني إبراهيم بن موسى أخبرنا هشام هو ابن يوسف عن معمر عن همام عن أبي هريرة قال قال أبو القاسم والذي نفس محمد بيده لو تعلمون ما أعلم لبكيتم كثيرا ولضحكتم قليلا.

سنن الترمذي: (أبواب الزهد، باب في قول النبي صلى الله عليه وسلم لو تعلمون ما أعلم لضحكتكم قليلا، رقم الحديث: 2312، 145/4، ط: دار الغرب الإسلامي)
عن أبي ذر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إني أرى ما لا ترون، وأسمع ما لا تسمعون، أطت السماء وحق لها أن تئط، ما فيها موضع أربع أصابع إلا وملك واضع جبهته ساجدا لله، والله لو تعلمون ما أعلم، لضحكتكم قليلا، ولبكيتم كثيرا، وما تلذذتم بالنساء على الفرش، ولخرجتم إلى الصعدات تجأرون إلى الله، لوددت أني كنت شجرة تعضد". وقال: هذا حديث حسن غريب.

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 278 Aug 09, 2023
jo haqaiq / haqaeq mujhe malom / maloom hain,agar tum jaan / jan lo to / too tum ziada / ziyada roo / rowo /rou or thora hanso" is hadis / hadees ki tehqiq / tehqeeq wa tashreeh

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.