سوال:
مفتی صاحب! قطع رحمی سے کیا مراد ہے؟ کون سے رشتے رحم کے رشتے کہلاتے ہیں؟ اگر کوئی رشتہ دار ہمیشہ تکلیف دہ باتیں کرتا ہو، کیا اس سے فاصلہ اختیار کرنا جائز ہے، جبکہ وہ خونی رشتہ دار بھی نہ ہو، مثلا: نند سے اس کے بھائی ملتے جلتے ہوں اور بھابھی اس سے فاصلہ اختیار کرلے تو کیا اس کی اجازت ہے؟
جواب: واضح رہے کہ قرآن وحديث میں جن رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمى اور حسن سلوک کى ترغیب آئى ہے، ان کو "ذوی الارحام" اور "ذوی القربی" کے الفاظ سے ذکر کیا گیا ہے، ان سے وہ تمام رشتہ دار مراد ہیں جن سے نسبی (خونى) رشتہ ہو، چاہے وہ رشتہ والد کی طرف سے ہو یا والدہ کی طرف سے، خواہ وہ رشتہ کتنا ہی دور کا کیوں نہ ہو، ایسے تمام رشتہ داروں کے ساتھ قرآن كريم اور احادیث مباركہ میں صلہ رحمى (رشتہ ناتا جوڑنے) کی بہت فضیلت اور تاکید وارد ہوئی ہے اور قطع رحمى (رشتہ ناتا توڑنے) سے منع کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد بارى تعالى ہے:
ترجمہ:
"اور تم ڈرو اللہ تعالیٰ سے جن کے نام پر تم دوسروں سے اپنے حقوق طلب کرتے ہو اور ڈرو تم قرابت کے حقوق ضائع کرنے سے"۔ (سورة النساء:آيت نمبر: 1)
ایک اور جگہ ارشاد بارى تعالى ہے:
ترجمہ:
"تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اور قرابت داروں کے ساتھ (اچھا سلوک کرو) (سورۃ النساء:آیت نمبر: 36)
اور جناب رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
ترجمہ:
"صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلہ چُکائے، بلکہ (رشتہ) جوڑنے والا وہ ہے کہ جب اس سے رشتہ توڑا جائے، تو وہ اسے جوڑ دے"۔
(صحيح البخاري: حدیث نمبر:5991 )
ایک اور ارشاد نبوی صلى اللہ علیہ وسلم ہے:
ترجمہ:
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "دوسروں کى دیکھا دیکھى کام کرنے والے نہ بنو، کہ تم کہو: اگر لوگ ہمارے ساتھ حسن سلوک کریں گے، تو ہم بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کریں گے اور اگر لوگ ظلم کریں گے، تو ہم بھی ظلم کریں گے، بلکہ اپنے آپ کو اس بات کا خوگر بناؤ کہ اگر لوگ تمہارے ساتھ حسن سلوک کریں، تب بھی تم حسن سلوک کرو اور اگر لوگ بد سلوکى کریں تب بھى تم ظلم نہ کرو، بلکہ حسن سلوک کرو"۔
(سنن الترمذي :حدیث نمبر: 2007)
مندرجہ بالا آیات و احادیثِ مبارکہ سے ہمیں یہ رہنمائى ملتى ہے کہ جب کوئى رشتہ دار قطع رحمى کرے، تو اس کے برے سلوک کے باوجود صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے، اگر وہ خود ہی بول چال بند کر دے، تو اسے منایا جائے۔ یقیناً ايسا كرنا بڑے حوصلے کى بات ہے، اور اس کے فضائل بھى لاتعداد ہیں، اس لیے اپنے ان اعمال کا اجر الله تعالى سے ملنے کا یقین رکھنا چاہیے۔
ہاں! اگر رشتہ داروں نے اس قدر ستایا ہو کہ اب ان سے راہ و رسم بڑھانے سے بجائے محبت پیدا ہونے کے الٹا عداوت پیدا ہو سکتی ہو اور جھگڑوں کا اندیشہ ہو، تو کم از کم درجے میں ان کے ساتھ سلام و کلام اور بات چیت کی حد تک تعلقات استوار رکھے جائیں۔
امام غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنی کتاب "احیاء علوم الدين" میں نقل فرمايا ہے:
ترجمہ:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عمال (گورنروں) کو خط لکھا کہ اقارب (رشتہ داروں) کو حکم کریں کہ آپس میں ملاقات کیا کریں، لیکن ایک دوسرے کے پڑوس میں نہ رہا کریں اور یہ حکم نامہ اس لئے جاری فرمایا تھا کہ ایک ساتھ رہنے سے حقوق میں ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے، جو بسا اوقات نفرت و قطع رحمی کا سبب بن جاتا ہے۔
نوٹ:
اگر کسى سے خونى رشتہ نہ بھى ہو، تب بھى اس سے ایمانى اور اسلامى رشتہ تو قائم ہے، لہذا کسى شرعى عذر کے بغیر کسى بھی مسلمان سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق رہنے کى حدیث مبارک میں ممانعت آئى ہے:
ترجمہ:
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی سے تین دن سے زیادہ تعلق منقطع رکھے، دونوں کا آمنا سامنا ہو تو یہ اس سے اور وہ اس سے منہ پھیر لے اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے"۔
(صحیح مسلم: حدیث نمبر:2560)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (النساء، الآية: 1)
واتقوا الله الذي تساءلون به والأرحام إن الله كان عليكم رقيبا o
و قوله تعالی: (النساء، الآية: 36)
واعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا وبالوالدين إحسانا وبذي القربى واليتامى والمساكين والجار ذي القربى ... الخ
صحيح البخاري: (كتاب الأدب، باب ليس الواصل بالمكافئ، رقم الحديث: 5991، 6/8، ط: دار طوق النجاة)
حدثنا محمد بن كثير: أخبرنا سفيان، عن الأعمش والحسن بن عمرو وفطر، عن مجاهد، عن عبد الله بن عمرو قال سفيان لم يرفعه الأعمش إلى النبي صلى الله عليه وسلم ورفعه حسن وفطر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "ليس الواصل بالمكافئ، ولكن الواصل الذي إذا قطعت رحمه وصلها".
سنن الترمذي: (أبواب البر والصلة، باب ما جاء في الإحسان و العفو، رقم الحديث: 2007، ط: دار الغرب الإسلامي)
عن حذيفة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تكونوا إمعة، تقولون: إن أحسن الناس أحسنا، وإن ظلموا ظلمنا، ولكن وطنوا أنفسكم، إن أحسن الناس أن تحسنوا، وإن أساءوا فلا تظلموا".
وقال: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه.
صحيح مسلم: (كتاب البر والصلة، باب تحريم الهجر فوق ثلاث بلا عذر شرعي، 1984/4، رقم الحديث: 2560، ط: دار إحياء التراث العربي)
عن أبي أيوب الأنصاري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال :"لا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال. يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا. وخيرهما الذي يبدأ بالسلام".
إحياء علوم الدين: (216/2)
"وروى أن عمر رضي الله عنه كتب إلى عماله مروا الأقارب أن يتزاوروا ولا يتجاوروا وإنما قال ذلك لأن التجاور يورث التزاحم على الحقوق وربما يورث الوحشة وقطيعة الرحم حُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَالْوَلَدِ".
الدر المختار مع رد المحتار: (416/6، ط: دار الفكر)
"وصلة الرحم واجبة ولو) كانت (بسلام وتحية وهدية) ومعاونة ومجالسة ومكالمة وتلطف واحسان ويزورهم غبا ليزيد حبا بل يزور اقرباءه كل جمعة أو شهر ولا يرد حاجتهم لأنه من القطيعة في الحديث: إن الله يصل من وصل رحمه ويقطع من قطعها.
(قوله: وصلة الرحم واجبة): نقل القرطبي في تفسيره اتفاق الأمة على وجوب صلتها وحرمة قطعها للأدلة القطعية من الكتاب والسنة على ذلك قال في تبيين المحارم: واختلفوا في الرحم التي يجب صلتها قال قوم: هي قرابة كل ذي رحم محرم وقال آخرون: كل قريب محرما كان أو غيره اه.. والثاني ظاهر إطلاق المتن، قال النووي في شرح مسلم: وهو الصواب واستدل عليه بالأحاديث. نعم تتفاوت درجاتها ففي الوالدين أشد من المحارم وفيهم أشد من بقية المحارم وفي الاحاديث إشارة الى ذلك كما بينه في تبيين المحارم".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی