سوال:
قرآن آن لائن اکیڈمیز جس میں پیسوں سے مارکیٹنگ کرکے باہر ممالک کے بچوں کو ڈھونڈ کر انہیں پڑھایا جاتا ہے اور پھر اکیڈمیز والے اس کےلیے ٹیچرز ہائر کرتے ہیں، اب اگر اکیڈمی کا ٹیچر اکیڈمی انتظامیہ سے چھپ کر کسی اسٹوڈنٹ کو اس کی رضامندی سے اپنا ذاتی شاگرد بناکر سبق پڑھائے تاکہ اس صورت میں پوری فیس اسی قاری صاحب کو ملے تو کیا اس طرح شاگرد کو اکیڈمی سے الگ کرکے پڑھانا اور فیس لینا جائز ہے اور کیا اس طرح کی کمائی سے حاصل شدہ آمدن حلال ہے اور اگر ان سٹوڈنٹ کے ذریعے استاذ کو مزید سٹوڈنٹس مل جائے جو اکیڈمی کے نہ ہوں تو ان کی فیس کا کیا حکم ہے؟
جواب: قرآن آن لائن اکیڈمی میں پڑھانے والے اساتذہ کا اکیڈمی کے ساتھ ملازمت کا معاہدہ ہوتا ہے، جس کے تحت کسی اسٹوڈنٹ (Student) کو اکیڈمی سے توڑ کر ذاتی حیثیت میں پڑھانے کی عموما ممانعت ہوتی ہے، اس لئے ایسا کرنا معاہدہ کی خلاف ورزی اور ادارہ کے ساتھ دھوکا اور خیانت پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب لازم ہے۔ تاہم اگر کسی نے ایسا کرلیا تو اس ٹیوشن کے عوض ملنے والی اجرت کو حرام نہیں کہا جائے گا، تاہم معاہدہ کی خلاف ورزی کا گناہ اپنی جگہ پر ہوگا۔
نیز اکیڈمی میں پڑھنے والے یا اکیڈمی چھوڑنے والے اسٹوڈنٹس کے واسطے سے اگر کوئی نیا اسٹوڈنٹ مل جائے، جس کا اکیڈمی کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ ہوا ہو، تو ایسے اسٹوڈنٹ کو ذاتی حیثیت میں پڑھانا شرعا درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
روح المعانی: (73/4، ط: زکریا)
"یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ" " أن المراد بها ما يعم جميع ما ألزمه الله تعالى عباده وعقد عليهم من التكاليف والأحكام الدينية، وما يعقدونه فيما بينهم من عقود الأمانات والمعاملات ونحوهما مما يجب الوفاء به، أو يحسن دينا، ويحمل الأمر على مطلق الطلب ندبا أو وجوبا، ويدخل في ذلك اجتناب المحرمات والمكروهات لأنه أوفق بعموم اللفظ
البحر الرائق: (107/6، 108، ط: دار الکتاب الاسلامی)
(قوله والسوم على سوم غيره) للحديث «لا يستام الرجل على سوم أخيه، ولا يخطب على خطبة أخيه» ، ولأن في ذلك إيحاشا وإضرارا، وهذا إذا تراضى المتعاقدان على مبلغ ثمن في المساومة فإذا لم يركن أحدهما على الآخر فهو بيع من يزيد، ولا بأس به على ما نذكره، وما ذكرناه محمل النهي في النكاح أيضا
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی