سوال:
میرا سوال یہ ہے کہ کیا انشورنس کے پیسے جائز ہیں؟ اگر جائز نہیں ہیں تو ان پیسوں کا کیا کریں جو ہمیں ملے ہیں؟ کیا ہم ان پیسوں میں سے جو ہم نے دیے وہ رکھ کر باقی پیسوں سے کسی کی مدد کر سکتے ہیں؟
کار کا انشورنس کمپنی سے انشورنس کروایا تھا، ایکسیڈنٹ ہونے کی صورت میں جمع کرائی گئی رقم سے زیادہ انہوں نے دیا ہے، ہماری جمع کرائی گئی رقم سے زیادہ جو رقم ملی ہے کیا اس سے کسی کی مدد کرسکتے ہیں؟
جواب: مروجہ انشورنس کے ذریعے اپنی اصل (پریمیم) رقم سے حاصل شدہ زائد رقم چونکہ سود کے حکم میں ہے، جس پر انشورنس کرانے والے کی ملکیت نہیں آتی، اس لیے آپ پر اپنی اصل جمع شدہ رقم لے کر بقیہ اضافی رقم اس کے اصل مالک (یعنی متعلقہ کمپنی) کو واپس کرنا شرعاً لازم ہے، اگر کمپنی یہ رقم واپس نہ لے یا اسے واپس کرنے کی کوئی ممکنہ صورت نہ ہو تو ایسی صورت میں بلانیتِ ثواب یہ رقم کسی مستحق پر صدقہ کرنا ہوگا۔
واضح رہے کہ مروّجہ انشورنس سود یا غرر پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز اور حرام ہے، لہٰذا اس سے بچنا ضروری ہے، تاہم علماء کرام نے انشورنس کا جائز شرعی متبادل اور حل "تکافل" کے نام سے پیش کیا ہے، جس کے اصولوں کی روشنی میں ہمارے ملک میں بھی کئی کمپنیاں کام کررہی ہیں، اس لیے اگر آپ چاہیں تو کسی ایسی کمپنی سے گاڑی کے تکافل کی سہولت حاصل کرسکتے ہیں جو مستند علماء کرام کی زیرِ نگرانی کام کررہی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فقه البيوع: (2/1006، ط: مکتبة معارف القرآن)
وإنّه حرامٌ للغاصب الانتفاعُ به أو التّصرّفُ فيه، فيجبُ عليه أن يرُدّه إلى مالكه، أوإلى وارثه بعد وفاتِه، وإن لم يُمكن ذلك لعدم معرفةِ المالك أو وارثه، أولتعذّر الرّدّ عليه لسببٍ من الأسباب،وجب عليه التّخلّصُ منه بتصدّقه عنه من غير نيّةِ ثوابِ الصّدقةِ لنفسه….
أمّا عمليّةُ التّأمين، فعمليّةٌ تشتمل على الرّبوا أو على الغرر أو عليهما……
وأمّا أقساطُ التّأمين، فهى مودَعةٌ من قبل أصحابها لدى شركات التّأمين مثل الودائع فى البنوك، لأنّها ترجعُ إلى أصحابها مع الفائدة الرّبويّة. وإنّها وإن سُمّيت ودائعَ فى الاصطلاح المعاصر، ولكنّها من النّاحية الشّرعيّة قروضٌ ربويّةٌ قدّمها أصحابُها إلى الشّركة. وقدّمنا أنّ القرضَ لايفسد بالشّرط الفاسد، ويملكه المستقرض، ويفسد شرط الزّيادة. فهذه الأقساطُ كلُّها مملوكةٌ للشّركة بعقد قرضٍ. وأمّا الرّبح الّذى تحصل عليها الشّركةُ من عمليّات التّأمين، فإنّه حرام.
رد المحتار: (403/6، ط: دار الفکر)
القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص.
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص،کراچی