عنوان: کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی۔۔۔الخ حدیث کی تشریح (10897-No)

سوال: مفتی صاحب! اس روایت کی تصدیق اور تشریح فرمادیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی، نہ کسی مردے سے کوئی الو نکلتا ہے، نہ کسی ستارے کی کوئی تاثیر ہے اور نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے۔ (سنن ابو داؤد۔ 3912)

جواب: سوال میں ذکرکردہ روایت سنن ابی داؤد میں ہے، ذیل میں اس روایت کا ترجمہ اورتشریح ذکر کی جاتی ہے:
ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:نہ بیماری ایک سے دوسری کو لگتی، نہ (ہی) مرنے والے کی روح پرندے کی شکل میں دنیا میں آتی ہے، نہ کسی ستارے کی کوئی تاثیر ہے اور نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے۔ (سنن ابی داؤد،حدیث نمبر:3912)
تشریح:
اس روایت میں زمانہ جاہلیت میں عربوں میں پائے جانے والے باطل عقیدوں اور توہمات کا رد کیا گیا ہے۔
لا عدوی:(بیماری ایک سے دوسری کو نہیں لگتی ہے۔)
اس حدیث مبارکہ میں ’’ لا عدوى ‘‘ فرما کر’’بیماری کے متعدی ہونے‘‘ کے نظریے کی نفی کی گئی ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: زمانۂ جاہلیت میں لوگ یہ سمجھتے تھے کہ امراض خود طبعاً اور لازمًا متعدی ہوتے ہیں، اللہ کی قدرت کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے، اس لیے بعض روایتوں میں اس کی نفی کی گئی ہے، اور جن روایات سے بیماریوں کے متعدی ہونے کا ثبوت ملتا ہے، ان کا منشا یہ ہے کہ اسباب کے درجہ میں مشیتِ خداوندی کے تحت متعدی ہونا بیماری کا ذریعہ بن سکتا ہے، اس لیے سدِّ ذرائع کےطور پر آپ ﷺ نے مجذوم سے دور رہنے کی تاکید فرمائی۔
اس ساری بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسی مرض کے بذاتِ خود ہرحال میں متعدی ہونے کا اعتقاد نہیں رکھنا چاہیے، البتہ اسباب کے درجے میں احتیاط ضرور کرنی چاہیے، کیونکہ بعض بیماریاں عادۃ ً متعدی ہوتی ہیں، اس لیے ان بیماریوں سے بچنے کے لیے ہرممکن اقدامات کرنے چاہیے۔
ولا هامة:
۱) " ہامہ " کے اصل معنی "سر" کے ہیں، لیکن یہاں اس لفظ سے ایک خاص جانور مراد ہے جو عربوں کے گمان کے مطابق میت کی ہڈیوں سے پیدا ہو کر اڑتا ہے، زمانہ جاہلیت میں اہل عرب یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اگر کسی شخص کو قتل کر دیا جاتا ہے تو اس مقتول کے سر سے ایک جانور جس کو " ہامہ " کہتے ہیں باہر نکلتا ہے اور ہر وقت یہ فریاد کرتا رہتا ہے کہ مجھے پانی دو، پانی دو، اور وہ قاتل کے مارے جانے تک فریاد کرتا رہتا ہے۔
۲) بعض لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ خود مقتول کی روح اس جانور کا روپ اختیار کر لیتی ہے اور فریاد کرتی ہے، تاکہ قاتل سے بدلہ لے سکے جب اس کو قاتل سے بدلہ مل جاتا ہے تو اڑ کر غائب ہو جاتا ہے۔ جناب رسول اللہ ﷺ نے اس اعتقاد کو بھی باطل قرار دیا اور فرمایا کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
۳) بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ " ہامہ " سے مراد " الو" ہے کہ جب وہ کسی گھر پر بیٹھ جاتا ہے تو وہ گھر ویران ہو جاتا ہے، یا اس گھر کا کوئی فرد مر جاتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ بھی "طیرہ" یعنی پرندہ کے ذریعہ بدفالی لینے کے حکم میں داخل ہے جو ایک ممنوع چیز ہے، چنانچہ جناب رسول اللہ ﷺ نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ اس عقیدہ کو باطل قرار دیا۔
ولا نوء:
نوء کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک ستارہ کا طلوع ہونا اور دوسرے کا غروب ہونا ہے۔ اہلِ عرب کا عقیدہ تھا کہ ان ستاروں کے طلوع ہونے اور غروب ہونے سے بارشیں ہوتی ہیں۔ شریعت نے اس کو مستر د کردیا اور بتادیا کہ بارش اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتی ہے ستاروں سے نہیں ہوتی۔
نہایہ میں لکھا ہے کہ نوء کی جمع انواء ہے جس کے معنی قمر اور چاند کی ان منازل کے ہیں جن کو "نچھتر" کہتے ہیں۔ چاند کی اٹھائیسں منازل ہیں۔اہل جاہلیت بارش کو انہیں منازل اور نچھتروں کی طرف منسوب کرتے تھے، ان کاخیال تھا کہ چاند یا کوئی ستارہ جب ان منازل میں سے فلاں منزل میں اتر آتا ہے تو یقینی طو ر پر بارش ہو جاتی ہے، گویا وہ لوگ ان منازل اور نچھتروں کو بارش کے لیے مؤثر حقیقی سمجھتے تھے۔ جناب رسول اللہ ﷺ نے اس عقیدے کو شرک قراردیا، لیکن یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ عقیدہ اس وقت شرک ہوگا، جب ان منازل کو بارش کے لیے مؤثر حقیقی سمجھا جائے، البتہ اگر منازل میں چاند کے آنے کو بارش کے نزول کا ایک ظاہری سبب سمجھا جائے، یعنی یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس وقت بارش برساتا ہے جب کہ چاند اپنی فلاں منزل میں آتا ہے اور وہ وقت علت کا درجہ نہیں رکھتا، بلکہ محض ایک ظاہری سبب کا درجہ رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اس وقت سے پہلے یا اس کے بعد بارش برسائے اور اگر چاہے تو اس وقت بھی نہ برسائے تو یہ عقیدہ نہ کفر کے دائرے میں آئے گا اور نہ اس کو باطل کہا جائے گا۔
ولا صفر:
اس سے صفر کا مہینہ مراد ہے جو محرم کے بعد آتا ہے، زمانۂ جاہلیت میں لوگ اس مہینہ کو منحوس سمجھتے تھے اور یہ خیال کرتے تھے کہ اس مہینے میں آفات و بلائیں اور حوادث ومصائب کا نازل ہوتی ہیں، اس لیے اس ارشاد کے ذریعہ اس عقیدے کو باطل و بے اصل قرار دیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن أبي داؤد: (رقم الحديث: 3912، 57/6، ط: دار الرسالة العالمية)
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "لا عدوى، ولا هامة، ولا نوء ولا صفر" .

فتح الباري: (161/10، ط: دار المعرفة)
وفي طريق الجمع مسالك أخرى أحدها نفي العدوى جملة وحمل الأمر بالفرار من المجذوم على رعاية خاطر المجذوم لأنه إذا رأى الصحيح البدن السليم من الآفة تعظم مصيبته وتزداد حسرته ونحوه حديث لا تديموا النظر إلى المجذومين فإنه محمول على هذا المعنى ثانيها حمل الخطاب بالنفي والإثبات على حالتين مختلفتين فحيث جاء لا عدوى كان المخاطب بذلك من قوي يقينه وصح توكله بحيث يستطيع أن يدفع عن نفسه اعتقاد العدوى كما يستطيع أن يدفع التطير الذي يقع في نفس كل أحد لكن القوي اليقين لا يتأثر به وهذا مثل ما تدفع قوة الطبيعة العلة فتبطلها وعلى هذا يحمل حديث جابر في أكل المجذوم من القصعة وسائر ما ورد من جنسه وحيث جاء فر من المجذوم كان المخاطب بذلك من ضعف يقينه ولم يتمكن من تمام التوكل فلا يكون له قوة على دفع اعتقاد العدوى فأريد بذلك سد باب اعتقاد العدوى عنه بأن لا يباشر ما يكون سببا لإثباتها وقريب من هذا كراهيته صلى الله عليه وسلم الكي مع إذنه فيه كما تقدم تقريره وقد فعل هو صلى الله عليه وسلم كلا من الأمرين ليتأسى به كل من الطائفتين ۔۔۔ العمل بنفي العدوى أصلا ورأسا وحمل الأمر بالمجانبة على حسم المادة وسد الذريعة لئلا يحدث للمخالط شيء من ذلك فيظن أنه بسبب المخالطة فيثبت العدوى التي نفاها الشارع وإلى هذا القول ذهب أبو عبيد وتبعه جماعة فقال أبو عبيد ليس في قوله لا يورد ممرض على مصح إثبات العدوى بل لأن الصحاح لو مرضت بتقدير الله تعالى ربما وقع في نفس صاحبها أن ذلك من العدوى فيفتتن ويتشكك في ذلك فأمر باجتنابه قال وكان بعض الناس يذهب إلى أن الأمر بالاجتناب إنما هو للمخافة على الصحيح من ذوات العاهة قال وهذا شر ما حمل عليه الحديث لأن فيه إثبات العدوى التي نفاها الشارع ولكن وجه الحديث عندي ما ذكرته.

عمدة القاري: (247/21، ط: دار إحياء التراث العربي)
قوله: (ولا هامة) الهامة الرأس واسم طائر وهو المراد في الحديث، وذلك أنهم كانوا يتشاءمون بها وهي من طير الليل، وقيل: هي البومة، وقيل: كانت العرب تزعم أن روح القتيل الذي لا يدرك بثأره يصير هامة فيقول: اسقوني اسقوني، فإذا أدرك بثأره طارت، وقيل: كانوا يزعمون أن عظام الميت وقيل: روحه تصير هامة فتطير ويسمونه: الصدى، فنفاه الإسلام ونهاهم عنه.

مرقاة المفاتيح: (2895/7، ط: دار الفكر)
عن أبي هريرة - رضي الله عنه - (قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: لا عدوى ولا هامة ولا نوء) : بفتح فسكون أي: طلوع نجم وغروب ما يقابله. أحدهما في المشرق والآخر بالمغرب، وكانوا يعتقدون أنه لا بد عنده من مطر أو ريح ينسبونه إلى الطالع أو الغارب، فنفى - صلى الله عليه وسلم - صحة ذلك. وقال شارح: النوء سقوط نجم من منازل القمر مع طلوع الصبح وهي ثمانية وعشرون نجما يسقط في كل ثلاث عشرة ليلة نجم منها في المغرب مع طلوع الفجر، ويطلع آخر مقابله في المشرق من ساعته. في النهاية: الأنواء منازل القمر، وكانت العرب تزعم أن عند كل نوء مطرا وينسبونه إليه فيقولون: مطرنا بنوء كذا، وإنما سمي نوءا لأنه إذا سقط الساقط منها بالمغرب، فالطالع بالمشرق ينوء نوءا أي ينهض ويطلع، وقيل: أراد بالنوء الغروب، وهو من الأضداد.
قال أبو عبيد: لم يسمع في النوء أنه السقوط إلا في هذا الموضع، وإنما غلظ النبي - صلى الله عليه وسلم - في أمر الأنواء لأن العرب كانت تنسب المطر إليها، فأما من جعل المطر من فعل الله وأراد بقوله: مطرنا بنوء كذا أي في وقت كذا، وهو هذا النوء الفلاني، فإن ذلك جائز أي: أن الله تعالى قد أجرى العادة أن يأتي المطر في هذه الأوقات ذكره الطيبي، والأظهر أن النهي على إطلاقه حسما لمادة فساد الاعتقاد، ولأنه لم يرد ما يدل على جوازه، وحاصل المعنى لا تقولوا: مطرنا بنوء كذا، بل قولوا: مطرنا بفضل الله تعالى.

عمدة القاري: (247/21، ط: دار إحياء التراث العربي)
قوله: (ولا صفر) كانت العرب تزعم أن في البطن حية يقال لها: الصفر، تصيب الإنسان إذا جاع وتؤذيه، وإنها تعدي فأبطل الإسلام ذلك، وقيل: أراد به النسيء الذي كانوا يفعلونه في الجاهلية وهو تأخير المحرم إلى صفر ويجعلون صفر هو الشهر الحرام، فأبطله الإسلام.

مظاہر حق: (318/4، ط: مكتبة العلم)

توضيحات شرح مشكوة: (610/6، ط: المكتبة العصرية)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 689 Aug 17, 2023
koi / koye bemari/ bemaari mutaddi / mutadi nahi hoti.. hadis / hadees ki tashreeh

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.