سوال:
میرے شوہر کو میرا بہت زیادہ باہر جانا پسند نہیں ہے، اس دن بھی میں ان کی اجازت سے ہی گئی، لیکن انہیں برا لگا اور بعد میں جب میں نے ان سے کال پر بات کی تو انہوں نے ناراضگی کا اظہار کیا، غصے میں نہیں تھے، لیکن ناراض لگ رہے تھے اور کہا کہ تم اپنی مرضی کرو، اب تم اپنی مرضی کرتی ہو، میں نے تمہیں آزاد چھوڑا ہوا ہے، اس وقت لفظ آزاد سے ان کا یہ مطلب تھا کہ تمہیں کوئی روک ٹوک نہیں، تم مرضی کرو، تمہیں فری ہینڈدیا ہوا ہے کہ تم نے تو میری بات سنی نہیں، یعنی ناراضگی کا اظہار کرنے کے لیے ایسے الفاظ استعمال کیے،کیا ایسا بولنے سے طلاق واقع ہوتی ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں شوہر کے ان الفاظ " تم اپنی مرضی کرو، اب تم اپنی مرضی کرتی ہو، میں نے تمہیں آزاد چھوڑا ہوا ہے" سے اگر شوہر کا مقصد نکاح سے آزاد کرنا نہیں تھا، بلکہ بیوی کے باہر جانے کے معاملے میں آزادی مراد تھی، جیسا کہ ان الفاظ کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے تو ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اور نکاح حسبِ سابق قائم ہے، تاہم شوہر کو چاہیے کہ آئندہ ایسے الفاظ کہنے سے اجتناب کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (299/3، ط: دار الفکر)
قوله سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري اه وقد صرح البزازي أولا بأن: حلال الله علي حرام أو الفارسية لا يحتاج إلى نية، حيث قال: ولو قال حلال " أيزدبروي " أو حلال الله عليه حرام لا حاجة إلى النية، وهو الصحيح المفتى به للعرف وأنه يقع به البائن لأنه المتعارف ثم فرق بينه وبين سرحتك فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت، لكن لما غلب استعمال حلال الله في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن ولولا ذلك لوقع به الرجعي۔
کذا في فتاویٰ دار العلوم کراتشی: رقم الفتوی: 1388/ 34
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی