سوال:
اکرم نے خالد سے پانچ لاکھ روپے ادھار لیے، کچھ عرصہ اکرم نے خالد کو رقم واپس کر دی، لیکن اس وقت تک پیسے کی ویلیو کافی گر چکی تھی، نہ تو خالد کی طرف سے کوئی مطالبہ ہوا کہ مجھے پیسے زیادہ دو اور نہ ہی خالد نے اپنی کسی بات سے ایسا اظہار کیا کہ مجھے پیسے پانچ لاکھ سے زیادہ چاہیے، لیکن اکرم کا دل چاہ رہا ہے کہ میں اس کو کچھ پیسے زیادہ ادا کروں، اس لیے کہ اس کے پیسوں کی ویلیو پہلے سے گر گئی ہے۔ کیا اس صورت میں اکرم خالد کو کچھ پیسے اضافی دے سکتا ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ قرض کی واپسی چاہے کتنے عرصے کے بعد ہی کیوں نہ ہو، اتنی ہی مقدار واپس کرنا لازم ہوتا ہے، قرض میں دی گئی رقم کی مالیت گھٹنے یا بڑھنے سے شرعا قرض کی مقدار پر کوئی فرق نہیں پڑتا، البتہ اگر قرض دار قرض خواہ کے مطالبہ اور شرط کے بغیر اپنی طرف سے کچھ بڑھا کر قرض دہندہ کو دیدے اور قرض دہندہ کو بڑھا کر دینے کا رواج نہ ہو تو یہ صورت نہ صرف جائز، بلکہ مستحسن ہے، لہذا صورتِ مذکورہ میں اگر واقعتاً اکرم خالد کی طرف سے کسی مطالبہ کے بغیر اپنی طرف سے قرض کی اصل رقم کے علاوہ کچھ اضافی پیسے دینا چاہتا ہے تو یہ دینا جائز ہے، یہ اس کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا اور اس پر اس کو اجر بھی ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح مسلم: (رقم الحدیث:1600، ط: دار إحياء التراث العربي)
عن أبي رافع إن رسول الله صلى الله عليه وسلم استسلف من رجل بكرا. فقدمت عليه إبل من إيل الصدقة. فأمر أبا رافع أن يقضي الرجل بكره. فرجع إليه أبو رافع فقال: لم أجد فيها إلا خيار ا رباعيا. فقال (أعطه إياه. إن خيار الناس أحسنهم قضاء).
سنن الترمذي: (رقم الحدیث: 1316، ط: دار الغرب الإسلامي بيروت)
عن أبي هريرة قال: «استقرض رسول الله صلى الله عليه وسلم سنا، فأعطاه سنا خيرا من سنه، وقال: خياركم أحاسنكم قضاء».
وفي الباب عن أبي رافع. حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح.
الدر المختار: (840/3، ط: سعيد)
الديون تقضى بأمثالها.
و فيه ايضا: (165/5، ط: سعيد)
(وكان عليه مثل ما قبض) فإن قضاه أجود بلا شرط جاز.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی