سوال:
میں نے تین سال پہلے شادی کی تھی، ان تین سال کے دوران ہماری آپس میں نہیں بنی، میری بیوی جب اپنے والدین کے گھر جاتی پھر وہ واپس نہیں آتی تھی، ابھی رمضان کی چھٹیوں میں جب اپنے والدین کے گھر گئی، وہاں سے واپس آئی تو اس نے خودکشی کرنے کی کوشش کی، لیکن اللہ نے بچالیا، ان کے بھائی آ ئے اور اپنی بہن کو لے گئے۔ میری بیوی کا کہنا یہ ہے کہ مجھے تمہارے ساتھ نہیں رہنا اور وہ شادی کے بعد سے یہی کہہ رہی ہے، لیکن پھر بھی تین سال ہم نے گزارے جب اس نے خودکشی کرنی کی کوشش کی تو اس کے والد یعنی میرے سسر نے کہا کہ اب معاملہ حل کرتے ہیں، کیونکہ آ گے چل کر ہمیں پریشانی ہوگی تو میرے سسر اپنے بیٹوں کو لے کر ہمارے گھر آ ئے اور ہمیں پہلے اطلاع دی تھی کہ ہم گھر پر آ رہے ہیں، جب وہ ہمارے گھر آئے تو میرے بھائی اور میری والدہ اس مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے سسر نے بات شروع کی کہ میں نے اپنی بیٹی کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ وہ اپنا گھر بسائے، مگر وہ اس بات پر رضامند نہیں ہے، لہذا ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں خلع دے دیں تاکہ آ گے چل کر ہم سب کو کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔
اس موقع پر میرے بڑے بھائی نے مجھے کہا کہ آپ کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا جب وہ میرے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں ہے تو میں چھوڑنے کے لیے تیار ہوں۔ اس موقع پر 12 سے 15 لوگ شریک تھے، مجھے یہ کہا گیا کہ تین چیزیں لے لو اس سے مراد یہ تھی کہ تین طلاقیں دے دو، لیکن میرے بڑے بھائی نے میرے سسر سے کہا کہ یہ اس شرط پر طلاق دینے کے لیے تیار ہے کہ اس پر جو مہر ہے جو اس نے اب تک نہیں دیا ہے، وہ خلع کی مد میں چھوڑ دو۔
میرے سسر نے کہا کہ ٹھیک ہے تو میں نے 250 روپے سو سو کے دو نوٹ اور ایک 50 کا نوٹ، یہ تین چیزیں ہوگئی میں نے اپنے سسر کے ہاتھ میں دیا۔ مطلب یہ تھا کہ آپ کی بیٹی کی تین طلاقیں ہیں، (ہمارے عرف میں تین طلاقیں دینی ہوں تو اسی طرح کہتے ہیں کہ تین چیزیں لے لو اور زبان سے طلاق کا لفظ استعمال نہیں کرتے ہیں) لیکن اس وقت میں نے زبان سے کچھ نہیں کہا۔
مفتی صاحب آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ کیا میں نے جو تین چیزیں دی ہیں، جبکہ میں نے زبان سے کچھ نہیں کہا ہے تو اس سے طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟ جب میں نے تین چیزیں دے دی تو مجلس میں جتنے لوگ تھے، وہ سب خاموش ہوئے۔ میری والدہ رونے لگیں اور اس کے بعد مجلس ہم نے دعا پر ختم کی۔
مجھے آ پ سے یہ پوچھنا ہے کہ میں نے جو تین چیزیں دی تھیں، اس سے طلاق واقع ہو گئی ہے یا نہیں؟ جزاکم اللہ خیرا
جواب: واضح رہے کہ خلع عقد معاوضہ کی طرح ہے، اس کے صحیح ہونے کے لیے میاں اور بیوی دونوں کی رضامندی سے ایجاب وقبول کا پایا جانا شرط ہے۔
سوال میں پوچھی گئی صورت میں آپ نے جو تین نوٹ دیے ہیں اور زبان سے کچھ نہیں کہا، اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، لیکن چونکہ آپ کے بڑے بھائی نے آپ کی رضامندی سے دوسرے فریق کو خلع کی پیشکش کی تھی، اگر آپ کے سسر نے لڑکی کی رضامندی سے اس کو قبول کیا تھا تو اس ایجاب وقبول سے آپ کی بیوی پر خلع کے نتیجے میں طلاق بائن واقع ہوگئی ہے، طلاق بائن کا حکم یہ ہے کہ میاں بیوی باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں، البتہ اس صورت میں شوہر کو صرف دو طلاقوں کا اختیار حاصل ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المختار: (230/3، ط:دارالفکر)
(قَوْلُهُ: وَرُكْنُهُ لَفْظٌ مَخْصُوصٌ) هُوَ مَا جُعِلَ دَلَالَةً عَلَى مَعْنَى الطَّلَاقِ مِنْ صَرِيحٍ أَوْ كِنَايَةٍ فَخَرَجَ الْفُسُوخُ عَلَى مَا مَرَّ، وَأَرَادَ اللَّفْظَ وَلَوْ حُكْمًا لِيُدْخِلَ الْكِتَابَةَ الْمُسْتَبِينَةَ وَإِشَارَةَ الْأَخْرَسِ وَالْإِشَارَةَ إلَى الْعَدَدِ بِالْأَصَابِعِ فِي قَوْلِهِ: أَنْتِ طَالِقٌ هَكَذَا، كَمَا سَيَأْتِي. وَبِهِ ظَهَرَ أَنَّ مَنْ تَشَاجَرَ مَعَ زَوْجَتِهِ فَأَعْطَاهَا ثَلَاثَةَ أَحْجَارٍ يَنْوِي الطَّلَاقَ وَلَمْ يَذْكُرْ لَفْظًا لَا صَرِيحًا وَلَا كِنَايَةً لَايَقَعُ عَلَيْهِ، كَمَا أَفْتَى بِهِ الْخَيْرُ الرَّمْلِيُّ وَغَيْرُهُ۔
بدائع الصنائع (154/3، ط: ایچ ایم سعید)
و أما ركنه فهو الإيجاب و القبول لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة و لا يستحق العوض بدون القبول.
فتاوی الھندیة: (488/1، ط:دارالفکر)
لَوْ قَالَ: خَلَعْتِ نَفْسَكِ مِنِّي بِكَذَا فَقَالَتْ: خَلَعْت قِيلَ يَصِحُّ وَقِيلَ لَا يَصِحُّ مُطْلَقًا وَالْمُخْتَارُ أَنَّهُ لَا يَصِحُّ إلَّا إذَا أَرَادَ بِهِ التَّحْقِيقَ لِأَنَّهُ سَوَّمَ ظَاهِرًا كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ.
لَوْ قَالَ: خَلَعْتُكِ بِكَذَا فَقَالَتْ: نَعَمْ فَلَيْسَ بِشَيْءٍ كَأَنَّهَا قَالَتْ: نَعَمْ خَلَعْتَنِي وَلَوْ قَالَتْ: رَضِيت أَوْ أَجَزْت صَحَّ وَكَذَا لَوْ قَالَتْ: طَلِّقْنِي بِكَذَا فَقَالَ: نَعَمْ فَلَيْسَ بِشَيْءٍ لِأَنَّهُ وَعَدَ بِخِلَافِ قَوْلِهَا أَنَا طَالِقٌ بِأَلْفٍ فَقَالَ: نَعَمْ يَقَعُ كَأَنَّهُ قَالَ: نَعَمْ أَنْتِ طَالِقٌ بِأَلْفٍ كَذَا فِي غَايَةِ السُّرُوجِيِّ
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی