سوال:
مفتی صاحب! میں نے ایک شخص کو مال بیچا،خریداری سے پہلے اس شخص نے مال نہیں دیکھا تھا، جب میں نے مال پہنچایا تو اس نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا، میں خود کو شریعت کا پابند سمجھتا ہوں، لہذا باوجود ایجاب و قبول کہ میں نے خیار عیب کی بنیاد پر اس کی بات مان لی، لیکن کیا وہ مال واپس لانے کے لیے اس شخص کی رضامندی سے یا اس کی رضامندی کے بغیر مال منتقلی کا خرچہ اور کرایہ وغیرہ اس سے لے سکتا ہوں؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ خیار رؤیت کی بنیاد پر مبیع (خریدی ہوئی چیز) واپس کرنی ہو تو مکان عقد تک مبیع واپس پہنچانے کا خرچہ خریدار کے ذمے ہے، لہذا آپ کی پوچھی گئی صورت کا حکم یہ ہے کہ آپ مشتری(خریدار) سے مال منتقلی کا خرچہ مشتری کی رضامندی سے یا اس کی رضامندی کے بغیر بھی لے سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (باب خیار الرؤیة، 594/4، ط: سعید)
(ﻭﻟﻪ) ﺃﻱ ﻟﻠﻤﺸﺘﺮﻱ (ﺃﻥ ﻳﺭﺩﻫ ﺇﺫا ﺭﺁﻩ) ﺇﻻ ﺇﺫا ﺣﻤﻠﻪ اﻟﺒﺎﺋﻊ ﻟﺒﻴﺖ اﻟﻤﺸﺘﺮﻱ، ﻓﻼ ﻳﺮﺩﻩ ﺇﺫا ﺭﺁﻩ ﺇﻻ ﺇﺫا ﺃﻋﺎﺩﻩ ﺇﻟﻰ اﻟﺒﺎﺋﻊ ﺃﺷﺒﺎﻩ…
(ﻗﻮﻟﻪ: ﺇﺫا ﺭﺁﻩ) ﺃﻱ ﻋﻠﻢ ﺑﻪ ﻛﻤﺎ ﻗﺪﻣﻨﺎﻩ. (ﻗﻮﻟﻪ: ﺇﻻ ﺇﺫا ﺣﻤﻠﻪ اﻟﺒﺎﺋﻊ ﺇﻟﺦ) ﻓﻲ اﻟﺒﺤﺮ ﻋﻦ ﺟﺎﻣﻊ اﻟﻔﺼﻮﻟﻴﻦ: ﺷﺮاﻩ ﻭﺣﻤﻠﻪ اﻟﺒﺎﺋﻊ ﺇﻟﻰ ﺑﻴﺖ اﻟﻤﺸﺘﺮﻱ ﻓﺮﺁﻩ ﻟﻴﺲ ﻟﻪ اﻝﺭﺩ؛ ﻷﻧﻪ ﻟﻮ ﺭﺩﻫ ﻳﺤﺘﺎﺝ ﺇﻟﻰ اﻟﺤﻤﻞ ﻓﻴﺼﻴﺮ ﻫﺬا ﻛﻌﻴﺐ ﺣﺪﺙ ﻋﻨﺪ اﻟﻤﺸﺘﺮﻱ، ﻭﻣﺆﻧﺔ ﺭﺩ اﻟﻤﺒﻴﻊ ﺑﻌﻴﺐ ﺃﻭ ﺑﺨﻴﺎﺭ ﺷﺮﻁ ﺃﻭ ﺭﺅﻳﺔ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﺸﺘﺮﻱ، ﻭﻟﻮ ﺷﺮﻯ ﻣﺘﺎﻋﺎ ﻭﺣﻤﻠﻪ ﺇﻟﻰ ﻣﻮﺿﻊ ﻓﻠﻪ ﺭﺩﻩ ﺑﻌﻴﺐ ﻭﺭﺅﻳﺔ ﻟﻮ ﺭﺩﻩ ﺇﻟﻰ ﻣﻮﺿﻊ اﻟﻌﻘﺪ ﻭﺇﻻ ﻓﻼ.
البحر الرائق: (باب خیار الرؤیة، 46/6، ط: رشیدیه)
فقه البیوع: (مؤنة النقل في الرد بخيار العيب، 834/2، ط: معارف القرآن کراچی)
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی