عنوان: بیوی کی غیر موجودگی میں تین پتھر ڈال کر "طلاق ہے" کہنے کا حکم (10927-No)

سوال: گزشتہ ستائیس رمضان کو میری اپنی بیوی کے ساتھ لڑائی ہوگئی تھی اور میں اس وقت غصے میں تھا، عصر کی نماز پڑھنے کے بعد یہ معاملہ تول پکڑتا گیا اور شیطان میرے دل میں عجیب عجیب وسوسے ڈالتا رہا اور پھر میں نے اچانک تین پتھر ڈال کے اس کے امی اور ابو کا نام لے کر "طلاق ہے" کہا، لیکن جب میں یہ لفظ استعمال کر رہا تھا، اس وقت بیوی کا نام بھی نہیں لیا اور نہ ہی اس کا خیال یا تصور آیا۔ جب یہ لفظ استعمال کررہا تھا تو ان کے بیٹیوں کا خیال آیا تھا یعنی میری بیوی کی بہنوں کا، یہ اس لئے کہ میں جب بھی اس کوغصہ کرتا تھا تو وہ ہمیشہ ان کے نام لیتی تھی کہ ان کے شوہر یہ کہتے ہیں اور وہ یہ کہتی ہے اور نیت بھی ایک کی تھی۔
اس کے بعد وہ اپنی میکے چلی گئی ایک مہینہ تک کوئی رابطہ وغیرہ نہیں ہوا، ایک مہینہ کے بعد اس نے کال کر کے کہا کہ مجھے آپ کی اور بچوں کی بہت یاد آتی ہے، میرے گھر والے میرا کہیں اور رشتہ کروا رہے ہیں، اس نے کہا کہ میں آپ کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے کہا مجھے بھی آپ کی بہت یاد آتی ہے اور اس کو کپڑے اور جوتے وغیرہ بھی لے کے دیے اور گھر والوں سے چھپ کے اس سے دو مرتبہ ہمبستری بھی کی ہے۔ اب میرے سسر کہتے ہیں کہ کوئی حل نکال کر لے جاؤ، کیونکہ ہمارے تین بچے ہیں۔ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔
تنقیح: محترم اس سوال کے جواب کے لیے یہ وضاحت فرمائیں کہ جب آپ نے تین پتھر پھینکے تو طلاق ہے کا لفظ بیوی کے سامنے استعمال کیا یا یہ کہ اس کی غیر موجودگی میں یہ عمل کیا؟ اس وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح:
اس کے غیر موجودگی میں کیا ہوں ہم بہت پریشان ہیں، پلیز کوئی راستہ نکالیں 3 بچے بھی ہیں۔

جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر واقعتاً یہ معاملہ ایسے ہی ہوا ہے جیسے سوال میں ذکر کیا گیا ہے، اور اس میں کسی قسم کی کوئی غلط بیانی نہیں کی گئی ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ جب تین پتھر ڈال کر بیوی کی غیر موجودگی میں آپ نے "طلاق ہے" کا لفظ کہا تو چونکہ اس میں طلاق کی بیوی کی طرف صراحتاً نسبت نہیں کی، اور آپ کے بقول نہ ہی اس وقت بیوی کا تصور اور خیال آپ کے ذہن میں تھا، اس لیے اس سے آپ کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی، تاہم آئندہ طلاق کے ساتھ پتھر ڈالنے اور اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (250/3، ط: دار الفكر)

الصريح لا يحتاج إلى النية، ولكن لا بد في وقوعه قضاء وديانة من ‌قصد ‌إضافة لفظ ‌الطلاق إليها عالما بمعناه ولم يصرفه إلى ما يحتمله كما أفاده في الفتح.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 579 Aug 23, 2023
biwi ki ghair mojodgi me /mein teen / 3 pathar dal kar " talaq hai" kehne ka hokom /hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.