سوال:
کیا غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں سے متعلقہ چیزوں کا کاروبار کرنا جائز ہے؟
جواب: غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں میں استعمال ہونے والی چیزیں اگر عمومی نوعیت کی ہوں، یعنی ان کے تہواروں کے ساتھ خاص نہ ہوں، بلکہ دیگر مقاصد میں بھی ان کا جائز استعمال موجود ہو تو ایسی چیزوں کا کاروبار کرنا شرعا جائز ہے، نیز ایسی اشیاء بھی اگر بیچنے والے کو یقینی طور پر معلوم ہو کہ یہ چیزیں ناجائز کاموں (غیر مسلموں کی مذہبی عقائد و رسومات کی ترویج تشہیر) میں استعمال ہوں گی تو ان لوگوں کو ایسی صورت میں ایسی اشیاء بیچنا گناہ کے کام میں معاونت (تعاون علی الاثم) پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں، اس سے اجتناب لازم ہے، اور اگر ان چیزوں کا استعمال عملی طور پر صرف غیر مسلموں کے مذہبی شعائر، علامات اور تہواروں میں ہوتا ہو، جس سے ان کے باطل مذہب کی ترویج و تشہیر ہوتی ہو تو ایسی اشیاء کا کاروبار کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المائدۃ، الایة: 2)
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ o
الدر المختار: (268/4، ط: دار الفکر)
"(ويكره) تحريما (بيع السلاح من أهل الفتنة إن علم) لأنه إعانة على المعصية (وبيع ما يتخذ منه كالحديد) ونحوه يكره لأهل الحرب (لا) لأهل البغي لعدم تفرغهم لعمله سلاحا لقرب زوالهم، بخلاف أهل الحرب زيلعي
فقه البیوع: (223/1، ط: مکتبة معارف القرآن)
القسم الثالث ما وضع لأغراض عامة ویمکن استعماله في حالتھا الموجودة فی مباح أو غیرہ..... والظاھر من مذھب الحنفیة أنھم یجیزون بیع ھذا القسم وإن کان معظم منافعه محرما....... ولکن جواز البیع فی ھذہ الأشیاء بمعنی صحة العقد. أما الإثم فیتأتی فیہ ما ذکرناہ فی شروط العاقد من أنه إذا کان یقصد به معصیة، بائعا أو مشتریا، فالبیع یکرہ تحریما، وذلک إما بنیة فی القلب، أو بالتصریح فی العقد أن البیع یُقصد به محظور. أما إذا خلا العقد من الأمرین ولا یعلم البائع بیقین أن المشتری یستعمله فی محظور فلا إثم فی بیعع. وإن علم البائع أنه یستعمله فی محظور وکان سببا قریبا داعیا إلی المعصیة فیکرہ له البیع تحریما، وإن کان سببا بعیدا لایکرہ مثل بیع الحدید من أھل الحرب أو أھل البغی.
واللہ تعالٰی أعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی