عنوان: روپیہ قرض دے کر ڈالر میں تبادلہ کا کہہ کر بعد میں دوبارہ روپے میں قرض واپسی کا حکم(10938-No)

سوال: میں نے آج سے دو سال پہلے ایک عزیز کو پچاس لاکھ روپے قرض دیا، میرے عزیز نے قرض تین ماہ بعد واپس کرنے کا وعدہ کیا لیکن وہ حسب وعدہ قرض واپس نا کر سکا۔ میں نے اپنے عزیز سے کہا کہ اگر تم میرے پیسے بروقت واپس کر دیتے تو میں پچاس لاکھ روپے کو امریکی ڈالر میں تبدیل کر کے محفوظ رکھتا کیوںکہ ملک کے خراب معاشی حالات کی وجہ سے روپے کی قیمت تیزی سے گر رہی تھی۔ اس پہ میرے عزیز نے کہا کہ آپ پچاس لاکھ روپے کو آج کے ڈالر ریٹ (186 روپیہ فی ڈالر) پہ تبدیل کر لیں اور اس کے مساوی جتنے ڈالرز بنتے ہیں وہ میں جب بھی قرض واپس کروں گا تو اتنے ڈالرز ادا کر دوں گا۔ 186 روپے فی ڈالر کے حساب سے کل 26882 بنے جس پہ میرے عزیز اور میں نے اتفاق کیا، میرا عزیز دسمبر میں قرض واپس کرے گا لیکن پاکستان میں ڈالرز کی شدید قلت کی وجہ سے میرا عزیز کہہ رہا ہے کہ کہ میرے لیے ڈالر ارینج کرنا مشکل ہو رہا ہے تو میں آپ کو 26882 ڈالرز کے بدلے میں موجودہ ریٹ پہ پاکستانی روپے ادا کر دیتا ہوں جو کہ کم و بیش اسی لاکھ روپے بنتے ہیں۔ کیا یہ میرے لیے یہ پیسے لینا جائز ہے؟ آپ کی رہنمائی کے لیے شکر گزار ہوں

جواب: واضح رہے کہ قرض اگر نقدی کی شکل میں ہو تو اس کی واپسی کا حکم یہ ہے کہ جو کرنسی بطورِ قرض لی گئی ہے، وہی واپس کی جائے یا باہمی رضامندی سے کسی دوسری کرنسی سے قرض کی ادائیگی کی جاسکتی ہے، اس شرط کے ساتھ کہ ادائیگی والے دن قرض دی ہوئی کرنسی کی قیمت لگا کر اس کے عوض جتنی دوسری کرنسی بنتی ہے، اتنی مقدار میں وہ دوسری کرنسی ادا کی جائے۔
اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ پوچھی گئی صورت میں پچاس لاکھ روپے قرض دے کر واپسی میں اسی لاکھ روپے لینا قرض پر نفع لینے کی وجہ سے سود ہے جوکہ حرام و ناجائز ہے، اس سے اجتناب لازم ہے۔ درست طریقہ یہ ہے کہ پاکستانی روپوں میں واپسی کی صورت میں پچاس لاکھ روپے ہی واپس لیے جائیں، اسی طرح باہمی رضامندی سے ادائیگی والے دن پچاس لاکھ کے عوض جتنے ڈالر بنتے ہوں، اتنے ڈالر بھی لیے جاسکتے ہیں، اگر شروع میں ہی ڈالر قرض دیئے گئے تو اب اتنے ڈالر لئے جاسکتے تھے، چاہے واپسی کے وقت اس کی مالیت جو بھی ہو۔
واضح رہے کہ صرف زبانی طور پر کہہ دینا کہ میرا قرض پاکستانی روپوں کے بجائے ڈالر میں شمار ہوگا، کافی نہیں جب تک عملی طور پر ڈالر بطور قرض نہ دیے جائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن أبي داود: (242/5، ط: دار الرسالة العالمیة)
عن ابن عمر، قال: كنت أبيع الإبل بالبقيع، فأبيع بالدنانير وآخذ الدراهم، وأبيع بالدراهم وآخذ الدنانير، آخذ هذه من هذه، وأعطي هذه من هذه، فأتيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وهو في بيت حفصة، فقلت: يا رسول الله، رويدك أسألك، إني أبيع الإبل بالبقيع، فأبيع بالدنانير وآخذ الدراهم، وأبيع بالدراهم وآخذ الدنانير، آخذ هذه من هذه، وأعطي هذه من هذه، فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "لا بأس أن تأخذها بسعر يومها، ما لم تفترقا وبينكما شيء".

رد المحتار: (389/2، ط: دار الفکر)
الديون تقضى بأمثالها.

المعاییر الشرعیة: (59، 60)
تصح المبادلة بالعملات الثابتة دینا فی الذمة اذا ادت الی الوفاء بسقوط الدینین محل المصارفة و تفریغ الذمة منھما۔ و من صورھا ما یاتی:
۱/۱۰/۲ تطارح (اطفاء) الدینین، بان یکون فی ذمة شخص دنانیر لآخر و للآخر فی ذمة الاول دراھم، فیتفقان علی سعر المبادلة لاطفاء الدین کله او بعضع تبعا للمبالغ، و یطلق علی ھذہ العملیة ایضا (المقاصة).
۲/۱۰/۲ استیفاء الدائن دینه الذی ھو بعملة ما بعملة اخری، علی ان یتم الوفاء فورًا بسعر صرفھا یوم السداد.

واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 263 Aug 24, 2023
rupia / rupya / raqam qarz de / dey kar dollar me /mein tabadla ka keh kar bad me / mein rupe / rupey me / mein qarz wapsi ka hokom /hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Loan, Interest, Gambling & Insurance

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.