عنوان: حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہما کے درمیان سوتنوں جیسى فطرى رقابت کى تحقیق (10948-No)

سوال: مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری کی تفسیر ہدایت القران میں لکھا ہے: " آخر میں فلسطین میں جابسے، وہاں بڑی تمنا وں اور دعا وں کے بعد صاحبزادے اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے، ابھی وہ شیر خوار تھے کہ وہ اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگے، چنانچہ ان کے مطالبہ پر ماں بیٹے کو ایک لق دق میدان میں چھوڑنا پڑا"۔ ( ج 1 ، ص 154 ، سورہ بقرہ آیت 124) کیا یہ بات درست ہے؟

جواب: جى ہاں! سوال میں "تفسیر ہدایت القرآن" کے حوالے سے حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہما کے جس واقعے کے متعلق پوچھا گیا ہے، یہ واقعہ صحیح حدیث سے ثابت ہے، اس واقعے کو "صحیح بخارى" میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کى روایت سے نقل کیا گیا ہے۔
واقعہ کى تفصیل یہ ہے کہ حضرت سارہ رضی اللہ عنہا جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کى زوجہ تھیں، انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کى خدمت میں حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کو بطور ہدیہ پیش کیا تھا، چنانچہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کى حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اولاد ہوئى یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے، جبکہ اس وقت تک حضرت سارہ رضی اللہ عنہا سے کوئى اولاد نہیں تھى، اس پر حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کو غیرت آئى (جیسا کہ سوتنوں میں فطرى طور رقابت ہوتى ہى ہے) اور انہوں نے قسم کھائى کہ وہ حضرت ہاجرہ کے تین اعضاء کاٹیں گیں، چنانچہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا نے اس اندیشہ سے کہ کہیں مجھے یہ نقصان نہ پہنچا دیں تو وہ ان سے اوجھل ہو کر جانے لگیں تو انہیں خیال ہوا کہ حضرت سارہ کو میرے نشانات قدم کا علم نہ ہو، اس کے لیے انہوں نے یہ تدبیر اختیار کى کہ اپنے کپڑوں پر درمیان میں ایک پٹکا باندھ لیا، تاکہ چلتے ہوئے وہ زمین پر گھسٹتا رہے اور اس سے نشانات قدم مٹتے جائیں، تاکہ حضرت سارہ کو ان کے جانے کا علم نہ ہو سکے، بعض حضرات نے ذکر کیا ہے کہ حضرت سارہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے خود کہا کہ آپ ان کو مجھ سے اوجھل کر دیں تاکہ رقابت زیادہ نہ بڑھ جائے، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صورتِ حال کى سنگینى دیکھتے ہوئے بحکم خداوندى حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور ان کے نو مولود بیٹے (حضرت اسماعیل علیہ السلام) کو شام سے لے کر روانہ ہو گئے اور بیت اللہ کے قریب لا کر بسا دیا۔
(مستفاد از: صحيح بخارى وشروحات بخارى:فتح البارى، عمدۃ القارى، تحفۃ القارى، انعام البارى)
نوٹ: یہاں یہ بات واضح ہونى چاہیے کہ سوتنوں کى باہمى رقابت فطرى امر ہے، اس پر ان کا مؤاخذہ نہیں کیا جائے گا، بشرطیکہ وہ اس فطرى رقابت کو بڑھاوا دے کر آپس میں ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحيح البخاري: (كتاب أحاديث الأنبياء، باب قول الله تعالى واتخذ الله إبراهيم خليلا، رقم الحديث: 3365، 144/4، ط: دار طوق النجاة)
"عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: "لما كان بين إبراهيم وبين أهله ما كان خرج بإسماعيل وأم إسماعيل ومعهم شنة فيها ماء فجعلت أم إسماعيل تشرب من الشنة فيدر لبنها على صبيها حتى قدم مكة فوضعها تحت دوحة ثم رجع إبراهيم إلى أهله فاتبعته أم إسماعيل حتى لما بلغوا كداء نادته من ورائه يا إبراهيم إلى من تتركنا قال: إلى الله ...الحديث".

عمدة القاري: (261/15، ط: دار إحياء التراث العربي)
"قوله: (وبين أهله) ، يعني: سارة لما ولدت هاجر إسماعيل، وقد تقدمت قصتها. قوله: (ما كان) ، أي: من جنس الخصومة التي هي معتادة بين الضرائر".

فتح الباري لابن حجر: (400/6، ط : المكتبة السلفية)
"قوله: (أول ما اتخذ النساء المنطق) بكسر الميم وسكون النون وفتح الطاء هو ما يشد به الوسط، ووقع في رواية ابن جريج النطق بضم النون والطاء وهو جمع منطق، وكان السبب في ذلك أن سارة كانت وهبت هاجر لإبراهيم فحملت منه بإسماعيل، فلما ولدته غارت منها فحلفت لتقطعن منها ثلاثة أعضاء فاتخذت هاجر منطقا فشدت به وسطها وهربت وجرت ذيلها لتخفي أثرها على سارة، ويقال إن إبراهيم شفع فيها وقال لسارة: حللي يمينك بأن تثقبي أذنيها وتخفضيها، وكانت أول من فعل ذلك... ويقال إن سارة اشتدت بها الغيرة فخرج إبراهيم بإسماعيل وأمه إلى مكة لذلك".

البداية والنهاية: (177/1، ط: دار إحياء التراث العربي)
"‌والمقصود :‌أن ‌هاجر عليها السلام لما ولد لها إسماعيل اشتدت غيرة سارة منها ،وطلبت من الخليل أن يغيب وجهها عنها ،فذهب بها وبولدها ،فسار بهما حتى وضعهما حيث مكة اليوم".

فتح الباري لابن حجر: (326/9، ط: المكتبة السلفية)
"وأصل الغيرة ‌غير ‌مكتسب للنساء، لكن إذا أفرطت في ذلك بقدر زائد عليه تلام، وضابط ذلك ما ورد في الحديث الآخر عن جابر بن عتيك الأنصاري رفعه: أن من الغيرة ما يحب الله، ومنها ما يبغض الله: فأما الغيرة التي يحب الله فالغيرة في الريبة، وأما الغيرة التي يبغض فالغيرة في غير ريبة، وهذا التفصيل يتمحض في حق الرجال لضرورة امتناع اجتماع زوجين للمرأة بطريق الحل، وأما المرأة فحيث غارت من زوجها في ارتكاب محرم إما بالزنا مثلا وإما بنقص حقها وجوره عليها لضرتها وإيثارها عليها، فإذا تحققت ذلك أو ظهرت القرائن فيه فهي غيرة مشروعة، فلو وقع ذلك بمجرد التوهم عن غير دليل فهي الغيرة في غير ريبة، وأما إذا كان الزوج مقسطا عادلا وأدى لكل من الضرتين حقها فالغيرة منهما إن كانت لما في الطباع البشرية التي لم يسلم منها أحد من النساء فتعذر فيها ما لم تتجاوز إلى ما يحرم عليها من قول أو فعل، وعلى هذا يحمل ما جاء عن السلف الصالح من النساء في ذلك".

واللہ تعالى أعلم بالصواب
دار الإفتاء الإخلاص،کراچى

Print Full Screen Views: 648 Aug 28, 2023
hazrat sara / sarah or hazrat hajra / hajrah razi allaho anhuma k darmian / darmiyan sotano jesi / jese fitri raqabat ki tehqiq / tehqeeq

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation of Quranic Ayaat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.