عنوان: اجارہ میں عمل اور وقت دونوں کو بنیاد بناکر معاملہ کرنا(10952-No)

سوال: گزارش یہ ہے کہ آج کل پروفیشنل ملازمتوں میں کام کے اہداف ہی فرض شناسی کا بنیادی معیار سمجھا جاتا ہے، مگر اوقات کی بھی کچھ پابندیاں ہوتی ہیں۔ تحریری معاہدے یا جاب ڈسکرپشن میں بھی دونوں نظر آتے ہیں۔ بعض جگہوں پر اہداف وصول کرنے پر وقت کی پابندی نظر انداز ہوجاتی ہے، دوسری جگہوں پر نظر انداز نہیں ہوتی، بلکہ پیسے یا چھٹی کٹتی ہے۔ یہ عمل فاسد معاملہ تو نہیں بنتا؟ اور اگر بطور مینیجر ہم اس کے نفاذ میں شریک ہوتے ہیں (جب کہ ہم بھی اس کی زد میں آتے ہیں) تو کیا ہم گناہ گار ہوں گے؟

جواب: واضح رہے کہ فقہی قواعد کی روشنی میں اجارہ یا تو عمل کی بنیاد پر ہوتا ہے یا وقت کی بنیاد پر، ایک ہی معاملہ میں اجرت کے استحقاق کے لیے عمل اور وقت دونوں کو ایک ساتھ بنیاد نہیں بنایا جا سکتا، البتہ کسی کو ملازمت پر رکھتے ہوئے اگر اہداف کے حصول کو بنیاد پر بنا کر اجرت مقرر کی جائے تو یہ اجارہ اصلاً عمل کی بنیاد پر ہوگا، تاہم انتظامی طور پر مخصوص اوقات کا پابند بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن اجرت کے استحقاق کا مدار طے شدہ اہداف کے حصول پر ہوگا۔

بعض ملازمتوں میں وقت کی بنیاد پر اجرت دینا طے کی جاتی ہے، پھر اس وقت کو کار آمد بنانے کے لیے اہداف بھی دیے جاتے ہیں، ایسی صورت میں اجرت کا استحقاق وقت دینے پر ہوگا، اہداف حاصل نہ ہونے کی صورت میں اجرت کی کٹوتی کرنا درست نہیں ہوگا، البتہ اہداف کے حصول کے لیے کوئی اور جائز تنبیہی کاروائی کی جاسکتی ہے، نیز اہداف کے لیے الگ سے کوئی بونس (Incentive) وغیرہ طے کیا جا سکتا ہے، ایسی صورت میں اصل اجارہ تو وقت کی بنیاد پر ہوگا جبکہ تبعاً عمل کو بھی شامل ہوگا۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں وقت اور عمل میں سے کسی ایک چیز کو اجرت کے استحقاق کے لیے بنیاد بنایا جائے، دوسری چیز کو تبعاً ذکر کردیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار :(باب الاجارۃ الفاسدۃ، 41/5 ط: زکریا)
(او) استاجر (خبازا لیخبز له کذا)کقفیز دقیق (الیوم بدرہم) فسدت عند الامام لجمعه بین العمل والوقت، ولا ترجیح لاحدہ
هما فیفضی للمنازعة۔

الفتاویٰ الهندیة: (الإجارة، 285/5، ط: زکریا)
وما یتصل بھٰذا الفصل اذا جمع فی عقد الاجارۃ بین الوقت والعمل اذا استأجر رجلاً لیعمل له عملاً الی اللیل بدرھم صبّاغة او خبزا او غیر ذلك فالاجارۃ فاسدۃ فی قول ابی حنیفة وفی قولہما یجوز استحسانًا ویکون العقد علی العمل دون الیوم حتی اذا فرغ منہ نصف النہار فله الاجر کاملاً وان لم یفرغ فی الیوم فله ان یعمله فی الغد اھ۔

والله تعالىٰ أعلم بالصواب ‏
دارالافتاء الإخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 115 Aug 28, 2023
ijara me amal or waqt dono ko bunyad banakar muamla karna

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Employee & Employment

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.