سوال:
میں اس وقت مسجد حرام میں ہوں اور مجھے ایک دن 110 ریال رقم حرم میں نماز پڑھنے کے بعد صف پر پڑے ملے۔ اب مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اس کا اعلان میں کہا کروں اور کیسے کروں؟ کبھی دل میں یہ خیال آتا ہے کہ میں خود ضرورت مند ہوں اور اس کو خرچ کرلوں کیونکہ یہ تھوڑی سی رقم ہے, اس کا مالک اس کو تلاش نہیں کرے گا۔ اس حوالے سے آپ میری شرعی رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ اگر کسی کو گری پڑی ہوئی کوئی چیز (رقم وغیرہ) مل جائے، اور وہ اتنی معمولی مقدار میں ہو کہ مالک اس کو تلاش نہیں کرے گا تو اس کی تشہیر کی ضرورت نہیں، بغیر تشہیر کے اس کو صدقہ کیا جاسکتا ہے، اور اگر اٹھانے والا خود مستحق ہو تو وہ بھی استعمال کرسکتا ہے۔
اور اگر وہ ایسی قیمتی چیز ہو جس کے بارے میں مالک پریشان اور فکر مند رہتا ہے، اور اس کو تلاش کرتا رہتا ہے تو ہر ممکن طریقہ سے اس کی تشہیر کی جائے، یہاں تک کہ غالب گمان حاصل ہوجائے کہ اب مالک واپس نہیں آئے گا اور تلاش کرنا چھوڑدیا ہوگا تو اس کے بعد اس کو صدقہ کیا جائے اور اگر اٹھانے والا خود زکوٰۃ کا مستحق ہو تو وہ اپنے استعمال میں بھی لاسکتا ہے۔
پوچھی گئی صورت میں مذکورہ رقم (110 ریال) اتنی معمولی رقم نہیں ہے کہ جس بارے میں یہ کہا جاسکے کہ مالک کو اس کی فکر نہیں رہے گی، اور وہ اس کو تلاش نہیں کرے گا، لہذا آپ حتی الوسع اس کی تشہیر کرکے اصل مالک تک پہنچانے کی کوشش کریں، اور اگر خود آپ کے لیے تشہیر و اعلان کرنا مشکل ہے تو وہاں چونکہ باقاعدہ حکومت کی طرف سے اس طرح کی گم شدہ چیزوں کے لیے جگہ مختص کی گئی ہے، لہذا یہ رقم وہاں کے ذمہ داران کے حوالے کردیں، وہ اپنی ذمہ داری سے اس کو مالک تک پہنچانے کی کوشش کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الدار قطنی: (کتاب الرضاع، 322/5، ط: موسسة الرسالة)
عن أبي هریرة أن رسول الله ﷺ سئل عن اللقطة، فقال: لاتحل اللقطة من التقط شیئاً فلیعرفه سنة، فإن جاء صاحبها فلیرد ها إلیه و إن لم یأت صاحبها فلیتصدق بها، وَإِنْ جَاءَهُ فَلْيُخَيِّرْهُ بَيْنَ الْآخَرِ وَبَيْنَ الَّذِي لَهُ‘‘.
الهندية: (290/2، ط: دار الفكر)
ثم ما يجده الرجل نوعان: نوع يعلم أن صاحبه لا يطلبه كالنوى في مواضع متفرقة وقشور الرمان في مواضع متفرقة، وفي هذا الوجه له أن يأخذها وينتفع بها إلا أن صاحبها إذا وجدها في يده بعد ما جمعها فله أن يأخذها ولا تصير ملكا للآخذ، هكذا ذكر شيخ الإسلام خواهر زاده وشمس الأئمة السرخسي - رحمهما الله تعالى - في شرح كتاب اللقطة، وهكذا ذكر القدوري في شرحه. ونوع آخر يعلم أن صاحبه يطلبه كالذهب والفضة وسائر العروض وأشباهها وفي هذا الوجه له أن يأخذها ويحفظها ويعرفها حتى يوصلها إلى صاحبها وقشور الرمان والنوى إذا كانت مجتمعة فهي من النوع الثاني وفي غصب النوازل إذا وجد جوزة ثم أخرى حتى بلغت عشرا وصار لها قيمة فإن وجدها في موضع واحد فهي من النوع الثاني بلا خلاف وإن وجدها في مواضع متفرقة فقد اختلف المشايخ فيه، قال الصدر الشهيد - رحمه الله تعالى -: والمختار أنها من الثاني.
الدر المختار: (کتاب اللقطة، 280/4، ط: دار الفکر)
(فإن أشهد عليه) بأنه أخذه ليرده على ربه ويكفيه أن يقول من سمعتموه ينشد لقطة فدلوه علي (وعرف) أي نادى عليها حيث وجدها وفي الجامع (إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبها أو أنها تفسد إن بقيت كالأطعمة) والثمار (كانت أمانة) لم تضمن بلا تعد فلو لم يشهد مع التمكن منه۔۔۔أو لم يعرفها ضمن إن أنكر ربها أخذه للرد وقبل الثاني قوله بيمينه وبه نأخذ حاوي، وأقره المصنف وغيره (ولو من الحرم أو قليلة أو كثيرة) فلا فرق بين مكان ومكان ولقطة ولقطة (فينتفع) الرافع (بها لو فقيرا وإلا تصدق بها على فقير ولو على أصله وفرعه وعرسه، إلا إذا عرف أنها لذمي فإنها توضع في بيت المال) تتارخانية. وفي القنية: لو رجى وجود المالك وجب الإيصاء.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی